Marriage Counselling: Hilarious Truths, Painful Regrets, and Sweet Joys

Marriage counselling does not always happen in an office with a professional therapist. Sometimes, it begins with the witty comments, sarcastic advice, and bittersweet experiences of married people around us. Young men often wonder why the happiest people suddenly turn into philosophers the moment marriage is mentioned. They will smile at your joy, then quietly ask with a meaningful tone, “So, when are you getting married?” That question is less curiosity and more of a warning disguised as friendly advice. As one humorous writer observed, the truth about this mystery unfolds only after years of marriage. This very insight was captured brilliantly in an article by Kausar Abbas, published in Daily Pakistan on December 29, 2020.

Marriage Counselling or Just Comic Relief?

Bachelors feel their lives are carefree: mornings start with tunes and evenings conclude with cheerful gatherings. Married men, observing this happiness, approach with a knowing grin and ask about marriage plans. Their advice is less professional and more laced with humor, as though to say, “We endured, now it’s your turn.”

Marriage as a Magical Tonic

In Pakistan, marriage is also seen as a cure for wayward sons. When a young man starts wandering aimlessly, ignoring his appearance, neglecting work, and sitting all day by the canal throwing pebbles in the water, elders quickly prescribe the ultimate solution: marriage. They say responsibility will straighten him out. And in some ways, it does—but not as expected. Physics teaches us that pressure bends things; it doesn’t straighten them. Yet married men discover their own “science of survival.” They push responsibilities ahead instead of lifting them, mastering the art of friction—sliding out of difficult moments with comic excuses.

Weddings Turn into Comedy Shows

Across cultures, people invent absurd ways to celebrate marriage. In China, nearly a hundred couples once married while sitting in hot-air balloons. Their goal was to compare how it feels to “go up before marriage” versus “going up after marriage.” In Pakistan, during the Musharraf era, when petrol prices skyrocketed, one man famously announced he would take his wedding procession on donkeys. As the procession passed, a witty onlooker remarked: “Look, the donkeys are getting married!” The pun was so sharp that everyone laughed, proving once again that marriage counselling often comes free of charge, disguised as humor.

Regrets, Joys, and the Eternal Complaint

Time passes, and many married men end up spending more hours in cafés, clubs, and with friends instead of at home. When asked why, they sigh and complain: “We regret getting married. Office duty ends, but home duty begins. There’s no peace, no break, only endless lists of tasks.” At this stage, they finally recall the second part of the proverb: “Those who eat the fruit regret as well.”

Nevertheless, amid all the regrets and laughter, it’s essential to remember that marriage remains a sacred institution. It is a Sunnah, a responsibility, and a partnership. The humour simply reflects the gap between expectations and reality. True marriage counselling, therefore, is not about shifting burdens but about treating your spouse the way you would want your daughter or sister to be treated in her home.

If you’re interested in reading this Essay Online, click the link below.

https://dailypakistan.com.pk/E-Paper/lahore/2020-12-29/page-10/detail-5

If you’d like to listen to this book in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.

You can also watch the same video on these social media platforms.

Because at the end of the day, behind every regretful laugh lies the simple truth: marriage can be heaven or a headache, depending on how you play your role.

شادی شدہ حضرات کےنام۔

 جناب کوثرعباس کایہ مضمون رونامہ پاکستان میں 29دسمبر،2020ءکوشائع ہوا۔

کہتے ہیں شادی ایسا میوہ ہے جو کھاتا ہے وہ بھی پچھتاتا ہے اور جو نہیں کھاتا وہ بھی۔ایک وقت ہوتا ہے جب انسان خوش ہی نہیں ہوتابلکہ خوشی میں ڈنٹر پیلا کرتا ہے، صبح صبح گھر سے بن سنور کر نکلنا، آنکھوں میں مستی اور لبوں پر گیت، سارادن گھومناپھرنا اور جب شام کو گراؤنڈ میں آنا تو خوشی سے باچھیں کھلی جا رہی ہوتی ہیں۔ یہ صورتحال دیکھ کر”شوگر ڈیڈی“ پاس آجاتے اوربڑے ہی بامعنی انداز میں پوچھتے ہیں ”تمہاری شادی کب ہورہی ہے؟“۔ میں نے ایک دفعہ طیفے فلسفی سے پوچھا ”شادی شدہ لوگ مجھ سے  یہ سوال اتنی بیتابی سے کیوں پوچھتے ہیں؟“۔ اس نے جواب دیا ”بیٹا! یہ تمہاری خوشیوں کے دشمن ہیں“۔ میں نے پوچھا ”وہ کیسے؟“۔ طیفے نے جواب دیا ”سمجھ جاؤگے“۔ مگرمجھے کیا پتا تھا کہ سمجھنے میں چالیس سال لگیں گے۔
پاکستان میں شادی کو ایک نسخے یا ٹانک کے طورپر بھی استعمال کیاجاتاہے، اس طرح کہ اگر کوئی راتوں کو دیر سے گھرآنے لگے، میلے کپڑوں میں رہنے لگے، بکھرے بال، بڑھے ہوئے ناخن، بے پالشی جوتی، بے دھوتامنہ، ہفتوں سے بے نہایا، آنکھوں میں جگرتا اور نشئی کی سی حالت، عادتیں کافی بگڑجائیں، رویہ ٹھیک نہ ہو، کسی طرف دھیان نہ جاتا ہو، سارا دن نہرکنارے بیٹھ کر پانی میں کنکریاں اچھالتا رہتاہو تو کچھ تجربہ کار بابے ایسے لڑکے کے والد کوگھیرلیتے ہیں اورصلاح دیتے ہیں کہ اس کی شادی کرادو، ذمہ داری کا بوجھ بڑھے گا تو ”سیدھا“ ہوجائے گا۔
یہ نسخہ اتنا کارگرہے کہ شادی ہونے کے بعد بندہ واقعی ایسا سیدھا ہوتا ہے کہ ساری زندگی یہ بات سمجھنے میں لگادیتا ہے کہ فزکس کے اصول کے مطابق بوجھ پڑنے پرباقی چیزیں جھکتی ہیں توانسان سیدھا کیسے ہوجاتا ہے؟ لیکن جیسے لوہے کو لوہا کاٹتا ہے ایسے ہی یارلوگ بھی فزکس کا توڑ فزکس سے ہی کرتے ہیں، وہ ایسے کہ فزکس کا اصول ہے کہ اٹھانامشکل ہے اور دھکیلناآسان، اسی لیے وہ اپنے اوپر ڈالی گئی ذمہ داری کو اٹھانے کے بجائے دھکیلناپسندکرتے ہیں، اس سے انہیں بھی آسانی رہتی ہے، وہ نہ صرف آسانی سے ذمہ داری کو آگے لے جاتے ہیں بلکہ انہیں فریکشن کا اصول بھی سمجھ آجاتا ہے جوانہیں کسی نازک موقع پر کام آتا ہے، اکثر والدین، جب اولادسرپر چڑھ جائے تو اسی ٹانک سے ان کا علاج کرتے ہیں۔
اس میوے کو کھانے کے لیے لوگ عجیب وغریب حرکات بھی کرتے ہیں، حال میں چین میں سوکے قریب جوڑوں نے یہ رسم بڑے بڑے ہوائی غباروں پر بیٹھ کر اداکی، کافی غورکیا کہ اس کی وجہ کیا ہے تو پتا چلا کہ وہ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ شادی سے پہلے ”اوپر“ جانے اور شادی کے بعد ”اوپر“ جانے میں کیا فرق ہے؟ اسی طرح کی ایک حرکت مشرف دور میں ہوئی تھی، جب پٹرول کی قیمت حد سے بڑھی تو ایک بھلے مانس نے احتجاجا اعلان کیا کہ وہ اپنی بارات گدھوں پر لے کر جائے گا، میں بھی سڑک کنارے کھڑاتھا، جب بارات وہاں سے گزری توایک شادی شدہ دل جلے نے گرہ لگائی ”یہ دیکھو! گدھوں کی بارات جارہی ہے“۔ یہ سن کر میرے سمیت سب نے اپنا منہ جھکالیا، پاس ہی ایک پروفیسر کھڑاتھا، اس نے بغل میں کھڑے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اورکہا ”میں کہتاتھا نا گرامر کا غلط استعمال بات کو کہاں سے کہاں پہنچادیتا“۔
شادی واقعی ایک ایسا میوہ ہے کہ نہ ہوتو چکھنے کو دل کرتا ہے اوروہ بھی اتنا شدیدکہ چلتے پھرتے ہر درخت کی طرف نظر یوں لپکتی ہے جیسے یہ میوہ اسی درخت سے ملے گالیکن  جب یہ میوہ دسترس میں آتا ہے تو کچھ عرصہ انسان باقی میوہ جات کو بھول جاتا ہے اورجب آنکھیں کھلتی ہیں تو زبان پر بے ساختہ یہ وظیفہ جاری ہو جاتا ہے ”چاردن کی چاندنی اورپھراندھیری رات ہے“۔ میں نے ایک بندے کو یہ وظیفہ جپتے دیکھاتوکہا ”شادی کے بارے میں تم ایسا کیوں کہہ رہے ہو؟تم جو مرضی کہومیں باز آنے والا نہیں، خودتوکرلی اورہماری باری آئی تو ہمیں منع کرتے ہو، میں تو اگلے مہینے ہی شادی کھڑکانے والا ہوں ”۔، یہ سن کر اس نے چادر جھاڑکر کندھے پر رکھی اورجاتے جاتے کہنے لگا“ بیٹا جی! ڈھول گلے میں ڈالناآسان ہے پتا تب چلے گا جب اسے بجاؤگے ”۔“ جس نے نہ کھایا وہ بھی پچھتایا ”کا گیت بھی کچھ لوگوں کی زبان پررہتا ہے۔ ان کے بارے میں عام ہے کہ ان کو مقولے کا صرف یہی حصہ یادہوتا ہے۔
کچھ عرصہ گزرتا ہے تو پھر یہ لوگ اپنا زیادہ تر وقت ہوٹلوں، کلبوں، سڑکوں، بازاروں اور دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں گزارتے ہیں، اگر کوئی پوچھے کہ اب کیا ہواہے؟ گھر کیوں نہیں جاتے؟ باہر کیوں پھرتے رہتے ہو؟ پریشان کیوں رہتے ہو؟ تب یہ لوگ بڑی ہی مسکین صورت بناکرکہتے ہیں ”یار! ہم تو شادی کرکے پچھتارہے ہیں، یہ بھی کوئی زندگی ہے، دفترسے ڈیوٹی ختم ہوتو گھر کی ڈیوٹی شروع ہوجاتی ہے، سکون کا ایک لمحہ میسر نہیں ہے، گھر میں داخل نہیں ہوتے کہ ایک لمبی سی لسٹ تیار ہوتی ہے، صبح اٹھو، بچوں کو سکول چھوڑ کر آؤ، بریک ٹائم انہیں کھانا دینے جاؤ، چھٹی کے وقت پھر لینے جاؤ، اپنے کام، بیگم کے کام، سسرال کے کام، ماں باپ کے کام، بچوں کے کام اور اوپر سے دفتر کے کام، ہم تو ایسی زندگی سے تنگ آگئے ہیں، جب یہ اس سٹیج پر آتے ہیں تو ان کو مقولے کا اگلا حصہ“ جو کھاتے ہیں وہ بھی پچھتاتے ہیں ”یادآتا ہے۔ ورنہ شادی تو ایک اسلامی امر ہے، انبیاء کی سنت پچھتانے والی کیسے ہوسکتی ہے بھلا؟  اوپر معاملات سے پتا چلتاہے کہ ”شادی ایک ایسا میوہ جس نے کھایاوہ بھی پچھتایا اور جس نے نہ کھایا وہ بھی پچھتایا“ کا راگ الاپنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو اس ذمہ داری کو اٹھانے کی بجائے دھکیلنا پسندکرتے ہیں۔ بس ایک کام کریں اپنی بیوی کے ساتھ وہی برتاؤکریں جو آپ اپنے داماد یا بہنوئی سے اپنی بیٹی یا بہن کے لیے چاہتے ہیں پھر دیکھنا گھر جنت بنتا ہے یا نہیں؟

Leave a Comment