Quaid-e-Azam quotes are essential for Pakistan’s unity and progress. From the nation’s creation onward, his words have guided people through times of crisis and continue to offer a clear direction for national cohesion today.
The Enduring Power of Quaid-e-Azam Quotes
Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah was not just a political leader but also a statesman whose words carried the weight of history. His quotes are a mirror of resilience, unity, and integrity. From the Pakistan Resolution in 1940 to the years leading up to independence, his statements reflected a clear vision: that Pakistan was not merely a political demand but an ideological journey.
In his message of March 22, 1942, Jinnah reminded Muslims of India that within three years of the Lahore Resolution, they had transformed from a scattered community into a united nation with a common destiny. This extraordinary unity was, as he explained, not born of propaganda but of truth, justice, and the undeniable right to self-determination.
Quotes That Shaped a Nation
Some Quaid-e-Azam quotes remain etched in Pakistan’s national consciousness. For example, his 1944 message on Pakistan Day emphasised that the Muslim League had become stronger each year and that Pakistan symbolised “our defence, our salvation, and our future.” He urged people to organise themselves, maintain discipline, and work with unity of thought and purpose.
Similarly, in his 1945 message, Jinnah made it clear that the struggle for Pakistan was not just about politics but about survival. “In Pakistan lies our salvation, defense, and honor,” he said, warning that without achieving this goal, Muslims would lose their identity in the subcontinent. Such words were not just motivational but a call for action, sacrifice, and unwavering faith.
From Vision to Reality: Scholarly Interpretations
Professor Dr. Ghulam Hussain Zulfiqar, a renowned scholar, historian, and critic, highlighted this very dimension in his book Pakistan: From Vision to Reality. According to him, Quaid-e-Azam quotes prove that the Pakistan Movement was not simply a political struggle but an intellectual and ideological mission. His analysis demonstrates how Jinnah’s speeches and Iqbal’s philosophical foundations together built the bridge from the dream of Pakistan to its reality.
Dr. Zulfiqar’s scholarship demonstrates that Jinnah’s words remain important for governance, unity, and moral responsibility. These quotes serve as guiding principles for contemporary Pakistan.
Relevance of Quaid-e-Azam Quotes Today
In today’s divided world, where Pakistan often grapples with political instability, corruption, and social discord, Quaid-e-Azam quotes serve as a reminder of what is possible through unity and integrity. His emphasis on education, discipline, and faith in one’s abilities speaks directly to a nation that must overcome crises of identity and leadership.
His call to students, urging them to prepare themselves for the responsibilities of the future, resonates even more today. Jinnah’s belief that the youth held the key to Pakistan’s ultimate victory was not only true in 1947 but remains relevant in 2025.
Conclusion: Learning from the Past
Quaid-e-Azam quotes are more than words — they are timeless lessons. They remind Pakistanis that their strength lies in unity, discipline, and faith. They challenge the nation to rise above divisions and rediscover the spirit that transformed a community into a nation within a few short years.
By revisiting Jinnah’s speeches and the scholarship that preserves them, Pakistan can find a roadmap to overcome present-day challenges. His vision was not confined to political independence; it was a moral and ideological framework for building a strong, just, and united nation.
The real test is whether we draw strength from these quotes to unite the country and move forward, or let their lessons be forgotten in our divisions.
If you’re interested in reading this book, click the link below for a free download.
https://drive.google.com/file/d/18vTBJTq34D7KE6_nVnXC2yWDZR4goTKk/view?usp=sharing
If you’d like to listen to this book in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.
You can also watch the same video on these social media platforms.
۲۳ پاکستانی قوم کے لیے ان کے محبوب قائدِاعظمؒ کے رہنماخطبات، فرمودات اور اصول و ہدایات ہمیشہ رہنمائی، قوتِ عمل اور قومی وحدت کا منبع رہے ہیں۔ قائدؒ کی شخصیت اور بیانات نے قوم کو نظریاتی سمت دی، قومی شعور پیدا کیا اور مشکل دور میں صبر، استقامت اور منظم جدوجہد کی راہ دکھائی۔ ان کی وفات کے بعد سے اب تک اس موضوع پر مستقل کتب اور تحقیقی مقالے لکھے جا رہے ہیں تاکہ ان کی فکری میراث کو محفوظ رکھا جائے اور آنے والی نسلوں تک مطالعہ و عمل کے لیے منتقل کیا جا سکے۔ ایسے ہی اہم کاموں میں سے ایک پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کی کتاب “پاکستان: تصور سے حقیقت تک” خصوصی اہمیت کی حامل ہے، جو نظریاتی بنیادوں، تاریخی واقعات اور قائدؒ کے خطبات و بیانات کے تناظر میں تحریکِ پاکستان اور اس کے بعد کے مراحل کا گہرائی سے جائزہ لیتی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین ذو الفقار ایک ممتاز محقق، نقاد، مؤرخ اور ماہرِ اقبالیات تھے۔ وہ ۱۵ اگست ۱۹۲۴ء کو بٹالہ، ضلعِ گرداسپور (برطانوی ہند) میں پیدا ہوئے اور ۱۳ جون ۲۰۰۷ء کو لاہور میں وفات پائی۔ انہوں نے تعلیمی میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں، پنجاب یونیورسٹی میں اردو شعبہ کے صدر رہے اور کچھ عرصہ استنبول یونیورسٹی میں اردو چیئر پر بھی فائز رہے۔ ان کی تحقیقی و تنقیدی تصانیف میں “اردو شاعری کا سیاسی اور سماجی پس منظر”، “اقبال کا ذہنی و فکری ارتقا” اور “سرگزشتِ اقبال: ایک محاکمہ” شامل ہیں۔ ان کے علمی کام نے نہ صرف اردو ادب بلکہ اقبالیات کو بھی ایک نیا فکری اور تحقیقی زاویہ عطا کیا۔
“پاکستان: تصور سے حقیقت تک” پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین ذو الفقار کی ایک جامع تحقیقی و تنقیدی کتاب ہے جو تحریکِ پاکستان کی نظریاتی ابتدا، قیادت کے افکار اور قیامِ پاکستان کے بعد پیدا ہونے والے سوالات و اختلافات کا مفصل مطالعہ پیش کرتی ہے۔ کتاب دو بنیادی حصوں پر مشتمل ہے: پہلا حصہ اقبال کے افکار اور تصورِ پاکستان کی فکری بنیادوں کا تجزیہ کرتا ہے، جبکہ دوسرا حصہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کے افکار، فرمودات، تقاریر، بیانات، ملاقاتوں اور پیغامات کے ذریعے آزادی کی جدوجہد اور قیامِ پاکستان کے بعد کے مراحل کو اجاگر کرتا ہے۔ مصنف کا بنیادی مؤقف یہ ہے کہ تحریکِ پاکستان صرف سیاسی عمل نہیں تھی بلکہ ایک فکری اور نظریاتی سفر بھی تھا — اور اس کتاب کا مقصد وہی نظریاتی اور عملی تقابل واضح کرنا ہے جو “تصورِ پاکستان” کو “حقیقتِ پاکستان” میں بدلنے کے عمل میں سامنے آیا۔
کتاب کے دوسرے حصے کے ایک باب “قوم کے نام پیغامات” سے یومِ پاکستان کے مواقع پر قائدؒ کے درج ذیل خطبات آوازِاردوکی ایک ویڈیومیں پڑھ کرسنائے گئے ہیں
22مارچ، 1942ء کودہلی میں یومِ پاکستان کے موقع پرقوم کےنام اپنے پیغام میں قائداعظمؒ نےفرمایا
“مارچ آج کا دن مسلمِ ہند کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی مبارک دن تین برس قبل آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاسِ لاہور میں باضابطہ طور پر پہلی بار مسلمِ ہند کے حتمی نصبِ العین کا تعین کیا گیا تھا، جو بعد ازاں “تجویزِ پاکستان” کے نام سے معروف ہوا۔
ان تین برسوں کے دوران مسلمانوں نے جو ترقی من حیثِ القوم کی، وہ ایک قابلِ ذکر شاندار واقعہ ہے۔ دنیا کی تاریخ میں اس سے قبل کوئی قوم اتنے مختصر عرصے میں ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر ایک مشترکہ نصبِ العین کے ساتھ اکٹھی نہیں ہوئی تھی — یعنی قلیل مدت میں اس وسیع و عریض برصغیر میں مسلم قوم متحد ہو گئی۔ اس سے قبل ایسا کبھی نہیں ہوا کہ جس قوم کو غلط طور پر اقلیت قرار دیا گیا ہو، وہ اس قدر سرعت اور مؤثر طریقے سے اپنی قومی حیثیت کا لوہا منوائے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ذہنوں میں یکلخت ایسی وحدتِ فکر پیدا ہوئی ہو۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ملک کے کروڑوں باشندوں نے اتنے محدود وقت میں، اور ایسے مخصوص حالات میں جیسے کہ ہند میں ہیں، نہ صرف اپنے اندر یکجہتی و استحکام پیدا کیا ہو بلکہ اس کا کھل کر اظہار بھی کیا ہو۔ تین برس قبل پاکستان محض ایک قرار داد تھی؛ آج یہ مسلمِ ہند کا جزوِ اعتقاد اور زندگی و موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔
یہ محض جذبات کا اظہار یا پروپیگنڈہ نہیں ہے جس نے ہمیں قومی یک جہتی قائم کرنے میں مدد دی ہو، بلکہ در حقیقت یہ ہمارے موقف کی سچائی، ہمارے مطالبے کی معقولیت، اور اس کے مبنی بر انصاف ہونے کا معاملہ ہے—اور ساتھ ہی ہمارے خود ارادیت کے پیدائشی حق کا؛ جس کی بدولت آج ہم فخر سے سربلند ہیں اور جس کے لئے جان دینے کو تیار ہیں۔
ہم نے آراء میں یک جہتی اور ذہن و فکر میں اتحاد پیدا کیا۔ آئیے اب ہم اپنی توجہ عوام کی تعلیمی، سیاسی، اقتصادی، معاشرتی ترقی اور اخلاقی فلاح کی طرف مرکوز کریں۔ آئیں ہم اپنے رہنماؤں سے تعاون کریں اور اجتماعی بہبود کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹائیں۔ اپنی تنظیم کو مضبوط کریں اور اس کی حسنِ کارکردگی کو اعلیٰ سطح پر استوار کریں۔ اس تمام کام میں حتمی منظوری اور تنقید ہمارے عوام کے فیصلے اور رائے پر منحصر ہے۔ ہم مسلمانوں کو اپنے مستقبل کا سامنا کرنے کے لیے اپنی موروثی صلاحیتوں، اپنے قدرتی وسائل، اپنی داخلی یک جہتی اور اپنے متحدہ عزم و ارادے پر انحصار کرنا ہوگا۔
میں خصوصاً اپنے اصحابِ دانش و بینش اور طلاب سے التماس کرتا ہوں کہ وہ آگے آئیں اور موقع و محل کے مطابق اقدام کریں۔ اپنی تربیت کریں؛ اس فرض کی ادائیگی کے لیے جو ہمارے سامنے ہے، اپنے آپ کو تیار کریں۔ آخری فتح کا انحصار آپ پر ہے اور وہ ہماری پہنچ میں ہے۔ ماضی میں آپ نے حیران کن کارنامے انجام دیے ہیں اور آج بھی آپ اس قابل ہیں کہ اپنی تاریخ کو دہرائیں۔ دوسری قوموں کے مقابلے میں اعلیٰ صلاحیتوں اور خوبیوں کی آپ میں کوئی کمی نہیں۔ آپ کو محض اس حقیقت کا پورا ادراک ہونا چاہیے اور جراءت، ایمان اور اتحاد کے ساتھ عمل کی راہ پر چلنا چاہیے”۔
(قائدِ اعظم: تقاریر و بیانات — انگریزی، جلدِ ۳، صفحۂ ۸۴)
یومِ پاکستان کی تقریب پر پیغام
لاہور، ۲۳ مارچ ۱۹۴۴
“یہ چوتھا برس ہے جب ہم نے ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو اپنی “قرار دادِ پاکستان” منظور کی تھی اور تب سے مسلم قوم برِصغیر کے طول و عرض میں ہر سال اس سنہرے دن کی یاد مناتی ہے۔ مجھے اس بات میں مطلق شک نہیں کہ اس سال بھی ماضی کی طرح پورے جوش و خروش اور دلجمعی کے ساتھ یہ دن منایا جائے گا۔ ہر گزرتا ہوا سال مسلم لیگ کو مضبوط سے مضبوط تر بناتا جا رہا ہے اور ہماری تنظیم زندگی کے ہر شعبۂ تعلیم، معیشت، معاشرت اور سیاست میں بڑے مسائل سے نمٹ رہی ہے۔ پہلے کے مقابلے ہم منزلِ پاکستان اور آزادی کے حصول کے مرحلے کے مزید قریب ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ میں آپ کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہوں جب میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمِ ہند اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک وہ اپنا منتہائے مقصود حاصل نہیں کر لیتا۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور میں اپنی معروف قرارداد میں ہماری منزلِ مقصود کی واضح نشاندہی کر دی ہے۔ اور یہ ہند کے سیاسی مسئلے کا واحد حل ہے — ایک ایسی تجویز جو عالمی امن بھی لائے گی۔ یہ ملک کی دو بڑی قوموں کو زیادہ مساوات کے ساتھ ہم کنار کرے گی اور اس جہت میں ہندو اور مسلمان دونوں کے لیے آزادی کا راستہ موجود ہوگا۔
ہمارے لئے پاکستان کا مطلب ہے: ہمارا دفاع، ہماری نجات اور ہمارا مستقبل۔ یہی واحد راستہ ہے جو ہمیں اپنی آزادی، اپنے وقار اور اسلام کی عظمت کو برقرار رکھنے کی ضمانت دے گا۔ ہمیں اپنے عوام کو ایک نہایت منظم اور مضبوط قوم کی شکل میں ڈھالنا ہوگا۔ کامیابی کی رفتار ہماری محنت پر منحصر ہوگی، اور یہ آپ کی دسترس میں ہے۔
گذشتہ برسوں کے دوران ہم نے قابلِ قدر ترقی کی ہے اور ہر برس یہ ترقی مزید تیز ہوتی جا رہی ہے۔ دیگر اقوام کے مقابلے میں ہم کئی خصوصیات اور اوصاف میں کسی سے پیچھے نہیں۔ ہم نے ایک بڑا مرحلہ سر کیا ہے اور قومی اتحاد کا قوتِ شعور پیدا کیا ہے۔ آئیں اسی انداز سے آگے بڑھیں کہ آنے والے برسوں کے دوران ہم امید سے سرشار ہوں، ہمارے دل یقین سے بھرپور ہوں، ہمارے کیمپ میں اتحاد قائم رہے اور ہماری صفوں میں نظم و ضبط ہو — مجھے اپنی کامیابی کا پورا یقین ہے اور ہم بلا شبہ اپنی منزلِ پاکستان حاصل کر لیں گے”۔
(دی ڈان، ۲۳ مارچ ۱۹۴۲)
یومِ پاکستان کی تقریب پر پیغام
نئی دہلی، ۲۲ مارچ ۱۹۴۵
“آج ہمارے اس عزمِ صمیم کے اعلان کی پانچویں سالگرہ ہے جو ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے کھلے اجلاس میں کیا گیا، جس میں ہم نے حتمی طور پر اپنے نصبِ العینِ پاکستان کی تشریح کر دی۔ یہ ہمارا ناقابلِ تغیّر قومی مطالبہ ہے۔ مسلمِ ہند اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک ہم شمال مغربی اور مشرقی منطقوں میں مکمل طور پر پاکستان حاصل اور قائم نہیں کر لیتے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، یہ مسلمِ ہند کے لیے زندگی اور موت کی جد و جہد ہے۔
پاکستان کے حصول میں ہماری نجات، دفاع اور وقار مضمر ہے۔ اگر ہم ناکام ہو گئے تو ہمارا وجود خطرے میں پڑ جائے گا اور اس برصغیر میں مسلمانوں یا اسلام کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہے گا۔ یہ ایک عظیم فریضہ ہے جو آپ کے سامنے ہے۔ لہٰذا میں اس قومی دن کے موقع پر آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ زندگی کے ہر شعبے میں خود کو منظم کریں اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہو جائیں۔
ہمارے استحکام، اتحاد اور نظم و ضبط میں ہی ہماری طاقت پنہاں ہے، اور یہی ہماری پشت پناہ ہے جو ہماری جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرے گی۔ کسی قربانی کو کم مت سمجھیں۔ ہم متحدہ ہند کی بنیاد پر کسی دستور کو قطعی طور پر قبول نہیں کریں گے”۔
قائدِاعظمؒ کے یہ مکمل خطبات اور پیغامات آج بھی پاکستانی قومی سوچ، ریاستی نظریہ اور سماجی و اخلاقی سمت کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین ذو الفقار کی کتاب اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ پاکستان کا قیام محض ایک سیاسی واقعہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی سفر تھا — اور اسی سفر کی خاطر ہمیں اپنی تاریخ، رہنمائی اور موجودہ حقیقت کا مسلسل مطالعہ اور تنقیدی جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ کتاب پڑھنے سے قائدؒ کے پیغامات کی نزاکت، ان کے عملی اور نظریاتی مضمرات، اور تحریکِ پاکستان کے اندرونی و بیرونی تقابل بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملتی ہے، جو قومی بیداری اور مستقبل کی پالیسی سازی دونوں کے لیے مفید ہے۔