When Time Stands Still: The Essence of Waiting
The psychology of waiting is not just about time — it is about emotion suspended in the air. Waiting teaches us how deeply we can feel, how long we can hope, and how quietly we can endure. In the stillness of waiting, every heartbeat becomes a whisper of desire.
This beautiful paradox lies at the heart of Muhammad Asadullah’s reflective Urdu essay “Intizar ki Nafsiyaat.” Building on these ideas, Asadullah offers a profound exploration of how the human soul experiences delay, longing, and hope. Through his calm yet piercing observations, Asadullah turns waiting into a mirror of our emotional depth.
The Writer Who Turned Silence into Meaning
Muhammad Asadullah, a contemporary Urdu humorist and essayist, is known for his playful yet thought-provoking reflections on everyday human emotions. His collection Double Role brings together essays that explore the contradictions of modern life with wit and psychological depth. Among these, Psychology of Waiting stands out as a tender and ironic exploration of how anticipation shapes our emotional world.
In “Intizar” (Waiting), he reveals that waiting is not a void — it is an inner dialogue between what we have lost and what we still dream of gaining. Through poetic insight and psychological truth, Asadullah paints waiting as both a torment and a teacher.
Between Hope and Hurt: The Emotional Landscape of Waiting
According to Asadullah, waiting is not passive — it is an active emotional process that stretches the human soul between fear and faith. The psychology of waiting unfolds through two emotional forces: hope, which keeps us alive, and uncertainty, which slowly consumes us.
To wait for love, success, or reunion is to experience the entire range of human feeling — joy, anxiety, longing, and surrender. Asadullah calls this the “beautiful pain” that defines every sincere emotion. Without waiting, he argues, there is no anticipation — and without anticipation, no depth in love or life.
He also laments that in today’s fast-paced world, we have forgotten how to wait. Technology gives speed but steals stillness. Those who cannot wait, Asadullah reminds, cannot truly feel — for patience is the mother of depth, and waiting is the test of the heart.
The Art of Enduring: When Pain Becomes Poetry
The psychology of waiting reveals a profound truth — that pain, when endured with patience, can become a source of beauty. Every soul that endures waiting learns humility, strength, and grace.
In Asadullah’s vision, waiting refines the heart like fire refines gold. It turns helplessness into meaning and loneliness into light. The act of waiting, therefore, is not a weakness but a quiet strength — a spiritual art that turns time into tenderness.
Conclusion: The Beautiful Pain That Teaches the Heart
Waiting is not the absence of movement — it is the rhythm of the heart learning to live between hope and despair. Asadullah’s essay reminds us that waiting does not waste time; it creates it — shaping our thoughts, deepening our emotions, and polishing our dreams.
The psychology of waiting thus becomes a metaphor for life itself—a constant dance, as earlier sections have shown.
If you’re interested in reading this book, click the link below for a free download.
https://drive.google.com/file/d/1ivKOi-yBEubjsrjuB7vjKbHiLqDF60gk/view?usp=sharing
If you’d like to listen to this book in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.
You can also watch the same video on these social media platforms.
If this emotional journey through the psychology of waiting moved you, explore Muhammad Asadullah’s other masterpiece —
The Dog’s Loyalty: A Powerful Symbol of Fame, but a Double-Edged Sword
a story that unveils how loyalty, much like waiting, carries both light and shadow.
“انتظار ایک کیفیت کا نام ہے، جو ہر انسان اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں ضرور محسوس کرتا ہے۔ یہ انسانی فطرت کا ایک لازمی جز ہے۔ کسی کے لیے یہ اذیت ناک تجربہ بن جاتا ہے، کسی کے لیے امید بھری ساعت، اور کسی کے لیے مٹھاس بھرا احساس۔ ہر شخص کے لیے انتظار کی نوعیت جداگانہ ہوتی ہے؛ کیونکہ یہ کیفیت وہی سمجھ سکتا ہے جس پر یہ گزر رہی ہو۔ کبھی یہ کیفیت انسان کے صبر کا امتحان لیتی ہے، کبھی اسے خوابوں میں مبتلا کرتی ہے، اور کبھی زندگی کی رفتار کو ایک نئے احساس سے بھر دیتی ہے۔ یہی کیفیت محمد اسداللہ نے اپنے انشائیے “انتظار” میں نہایت لطافت اور گہرائی کے ساتھ بیان کی ہے، جس میں انتظار کے مختلف پہلوؤں کو فکری، جذباتی اور مزاحیہ رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔
محمد اسداللہ 16 جون 1958 کو وروڈ، مہاراشٹر (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ وہ اردو کے ممتاز انشائیہ نگار، نقاد، مترجم اور ادبِ اطفال کے ماہر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اردو، عربی، فارسی اور انگریزی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور انشائیہ پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ طویل عرصے تک وہ مولانا ابوالکلام آزاد جونیئر کالج، ناگپور میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ محمد اسداللہ کی تصانیف میں انشائیہ کی روایت مشرق و مغرب کے تناظر میں، یہ ہے انشائیہ، انشائیہ شناسی، کھلونا — ایک انتخاب اور بچوں کی زمین سے جیسی اہم کتابیں شامل ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کو مختلف علمی و ادبی اداروں نے انعامات سے نوازا گیا۔ وہ جدید اردو انشائیہ کو ایک فکری و تخلیقی اظہار کے طور پر نئی جہت دینے والے ادیبوں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
محمد اسداللہ کی کتاب “ڈبل رول” اردو ادب میں طنز و مزاح اور انشائیہ نگاری کا ایک حسین امتزاج ہے، جو 2015 میں شائع ہوئی۔ یہ مجموعہ 11 انشائیوں اور 12 طنزیہ و مزاحیہ مضامین پر مشتمل ہے۔ عنوان ہی سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب انسانی کرداروں کے دوہرے پن اور معاشرتی تضادات کو ہلکے پھلکے مگر فکرانگیز انداز میں سامنے لاتی ہے۔ اسداللہ نے نہایت شگفتگی اور سلیقے سے انشائیہ اور طنز و مزاح کے درمیان باریک فرق کو واضح کیا ہے۔ ان کے نزدیک انشائیہ ایک تخلیقی اور فکری اظہار ہے، جب کہ طنز و مزاح کا مقصد معاشرتی اصلاح اور انسانی کمزوریوں کی نشاندہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ “ڈبل رول” کو محض تفریحی تصنیف نہیں بلکہ اردو نثر میں ایک فکری تجربہ قرار دیا جاتا ہے۔
کتاب “ڈبل رول” میں شامل انشائیہ “انتظار” آوازِ اردو کی ایک خوبصورت ویڈیو میں نہایت دلکش انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس میں محمد اسداللہ نے انتظار کی اس عجیب و لاجواب کیفیت کو بیان کیا ہے جو ہر انسان کے وجود میں کسی نہ کسی صورت میں بہتی رہتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
“انتظار وہ لاجواب سی کیفیت ہے جس میں ہم سوالی کی طرح آنے والے کی راہ دیکھتے نہیں تھکتے، جھک کر بیٹھ بھی جائیں تو انتظار ندی کی طرح دھیرے دھیرے بہتا رہتا ہے۔ البتہ ہم تھک کر ہار جائیں تو پھر کیسا اور کس کا انتظار؟ انتظار دراصل ایک سوال ہے جو اپنے جواب سے بچھڑ گیا ہے۔ ان دونوں کا ملن ہو جائے تو انتظار انتظار نہیں رہتا، جیسے ایک پیاسی ندی سمندر کے وجود میں گم ہو گئی ہو۔”
مصنف نے انتظار کی اس لامحدود سرزمین کو زندگی کے مختلف پہلوؤں سے جوڑ دیا ہے — محبوب کے دیدار سے لے کر تنخواہ کی آمد، رزلٹ کے اعلان سے قیامت کے انتظار تک۔ وہ کہتے ہیں کہ انتظار کا وجود ہی ہماری روزمرہ زندگی کی سب سے بڑی سرگرمی ہے؛ صبح ہو تو شام کا انتظار، شام ڈھلے تو صبح کی امید۔ کبھی چائے، دودھ، اخبار، یا گیس سلنڈر کے انتظار میں زندگی گزرتی ہے اور کبھی خوابوں کے پورا ہونے کے۔
مصنف نے انتظار کو محض جذباتی یا رومانوی تجربہ نہیں بلکہ ایک فلسفیانہ کیفیت کے طور پر پیش کیا ہے، جہاں انسان اپنے خیالات، کمزوریوں اور امیدوں کے ساتھ مسلسل مکالمے میں رہتا ہے۔ ان کے بقول، “آرزو اور انتظار کے دو کھلونوں سے چار دن کھیلنے کا نام ہی زندگی ہے۔”
اسداللہ کے اس انشائیے کی سب سے بڑی خوبی اس کا مشاہداتی اسلوب اور زبان کی سادگی ہے۔ وہ روزمرہ زندگی کی معمولی باتوں سے ایسے معنی خیز اشارے پیدا کرتے ہیں جو قاری کو مسکراہٹ کے ساتھ سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔ طنز، مزاح اور فکر کی یہ آمیزش ہی ان کے قلم کا امتیاز ہے۔
محمد اسداللہ کا انشائیہ “انتظار” دراصل انسان کی اندرونی کیفیات اور وقت کے بہاؤ کے ساتھ اس کے تعلق کا ایک دل آویز تجزیہ ہے۔ وہ انتظار کو ایک نفسیاتی اور روحانی تجربہ قرار دیتے ہیں، جو کبھی امید، کبھی مایوسی اور کبھی مسکراہٹ بن کر انسان کی زندگی میں شامل رہتا ہے۔ ان کی تحریر ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ زندگی کی اصل لذت شاید انتظار ہی میں پوشیدہ ہے — چاہے وہ کسی خواب کی ہو، کسی ملاقات کی، یا کسی نامعلوم صبح کی۔
یوں “ڈبل رول” کا یہ انشائیہ اردو انشائیہ نگاری کی ایک خوبصورت مثال ہے، جس میں فکاہت، فلسفہ اور انسانی احساسات سب ایک ہی لڑی میں پروئے گئے ہیں”۔