The Light of Faith Beyond Appearances
The spiritual insight of believers is a divine illumination that enables them to see beyond the visible world. A heart filled with faith does not stop at outward appearances; it perceives the hidden consequences of present actions and reads the signs of what is yet to come. As the Prophet ﷺ said, “Beware of the believer’s insight, for he sees with the light of Allah.” This profound saying explains how true faith becomes a source of inner vision, allowing a believer to recognize truth even when the world around him is blinded by illusion.
Among those who embodied this spiritual insight of believers was Shaykh al-Islam Maulana Hussain Ahmad Madani (RA) — a scholar, political thinker, and spiritual guide whose vision transcended his time. His understanding of India’s political destiny and his foresight regarding the consequences of partition remain a remarkable example of faith-guided perception.
Madani’s Vision: Faith, Foresight, and Fearless Honesty
Maulana Madani’s opposition to the partition of India stemmed from spiritual foresight, not politics. Critics accused him of resisting Muslim unity, yet his concern was driven by the conviction that a fragmented Muslim homeland would invite deep divisions, instability, and decline. He saw that ignoring spiritual warnings could allow immediate decisions to create lasting harm. His perspective, born of deep faith, exemplifies how spiritual insight can reveal consequences others fail to consider.
Decades later, when East Pakistan separated to form Bangladesh in 1971, his predictions echoed hauntingly. Many scholars, including Maulana Sami ul-Haq (RA), acknowledged that Madani’s fears were not unfounded. What the world dismissed as pessimism was, in fact, the foresight of a saintly scholar who had read the trajectory of history through the mirror of faith.
Documented Wisdom: Dr. Abu Salman Shahjahnpuri’s Contribution
The great historian and researcher Dr. Abu Salman Shahjahnpuri (RA) preserved these insights in his masterpiece “Maulana Hussain Ahmad Madani: A Political Study.” This book compiles critical essays and analyses by scholars who examined Madani’s political wisdom and foresight. Through meticulous research, Dr. Shahjahnpuri revealed how the spiritual insight of believers often transcends worldly logic and exposes the hidden flaws in human planning.
Born in Shahjahanpur, India, and later settling in Karachi, Dr. Abu Salman dedicated his life to exploring the intellectual and spiritual dimensions of South Asian Muslim leaders. His works — over 150 in number — stand as a monument to historical integrity and academic honesty. His analysis of Madani’s fears for Pakistan serves as a reminder that true spirituality is not detached from reality; it perceives truth in both the seen and the unseen.
Unheeded Warnings and the Price of Neglect
The spiritual insight of believers often warns societies of unseen dangers, but such wisdom is rarely welcomed in its time. Madani and his companions — men of integrity and divine awareness — cautioned that a fragmented Muslim homeland would struggle to maintain unity, stability, and moral strength. They feared that foreign interference, moral corruption, and political betrayal could weaken the dream of an Islamic state.
Tragically, many of those unheeded fears for Pakistan later unfolded as reality: loss of unity, foreign dependence, and ideological confusion. Ignoring the spiritual insight of believers enabled preventable crises; their warnings were not pessimism, but vision—an attempt to steer the nation toward sincerity and divine guidance.
Faith, Nation, and the Test of Time
Maulana Madani’s life teaches that the spiritual insight of believers is both a blessing and a burden. Those who possess it see what others ignore. They speak the truth when it is most inconvenient. Despite opposition, Madani remained steadfast, urging Muslims to unite on the basis of faith and justice rather than emotion or nationalism. His words resonate even today, reminding Pakistan that its true strength lies not in boundaries or power, but in the revival of faith-based ethics.
Conclusion: Heeding the Light Before It Fades
The spiritual insight of believers is not confined to saints or scholars — it is a quality that every sincere heart can nurture through faith, reflection, and moral courage. Pakistan’s history is a testament to what happens when spiritual warnings are disregarded and material ambition prevails. The legacy of Maulana Hussain Ahmad Madani and Dr. Abu Salman Shahjahnpuri invites us to rediscover the moral compass that once guided Muslim leadership — a compass illuminated by the light of belief.
If you’re interested in reading this book, click the link below for a free download.
https://drive.google.com/file/d/1M_8zfFuDHwY3qQcOEzEiGC0ZqdNG7LNF/view?usp=sharing
If you’d like to listen to this book in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.
You can also watch the same video on these social media platforms.
Let us, then, not repeat the error of overlooking the spiritual insight of believers. For in their vision lies the wisdom our future still needs.
Faith is not blind — it sees what intellect ignores.
Listen to the timeless excerpts from Dr. Abu Salman Shahjahnpuri’s works on AwazeUrdu, and rediscover the spiritual light that guides nations.
ایمان والا دل صرف ظاہر پر نہیں رکتا بلکہ وہ اپنے نورِ ایمان سے مستقبل کے خد و خال بھی دیکھ لیتا ہے۔ مومن کی فراست ایک ایسی روشنی ہے جس سے وہ ان نتائج کا اندازہ لگا لیتا ہے جو عام نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ “مومن کی فراست سے ڈرو، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔” تاریخِ اسلام میں ایسے کئی اہلِ بصیرت گزرے جنہوں نے اپنی ایمانی نگاہ سے حالات کا رخ پہچان لیا۔ انہی میں ایک نمایاں نام شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کا ہے۔
حضرت مدنیؒ نہ صرف علم و تقویٰ کے پیکر تھے بلکہ ان کی سیاسی و اجتماعی بصیرت بھی غیر معمولی تھی۔ انہوں نے اگرچہ بظاہر تقسیمِ ہند کی مخالفت کی، جس پر انہیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، مگر وقت نے ثابت کیا کہ ان کے خدشات اور پیشبینیاں حقیقت کا روپ دھار گئیں۔ مولانا سمیع الحقؒ نے ۱۹۷۲ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد اپنے مضمون میں انہی خدشات کو بیان کیا، جسے بعد ازاں ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوریؒ نے اپنی کتاب میں شامل کیا۔
ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوریؒ ایک بلند پایہ محقق، مؤرخ اور مصنف تھے۔ وہ ہندوستان کے شہر شاہجہان پور میں پیدا ہوئے اور بعد ازاں پاکستان ہجرت کر کے کراچی میں مقیم ہوئے۔ ان کی علمی زندگی کا محور برصغیر کی سیاسی، فکری اور دینی تحریکات رہا۔ وہ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی جیسے اکابر کی شخصیتوں اور افکار کے ماہر تھے۔ ان کی تصانیف کی تعداد ڈیڑھ سو سے زائد ہے، جن میں تاریخ، سیاست، فکرِ اسلامی اور تحریکِ آزادی کے موضوعات پر گراں قدر تحقیقی کام شامل ہے۔ ان کی تحریروں میں علمی دیانت، غیر جانب داری اور تاریخی شعور نمایاں ہے، جس نے انہیں اردو تحقیق کی دنیا میں ایک معتبر مقام عطا کیا۔
ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوریؒ کی تصنیف
“مولانا حسین احمد مدنیؒ: ایک سیاسی مطالعہ”
اُن کی علمی بصیرت اور تحقیقی گہرائی کا ایک درخشاں نمونہ ہے۔ یہ کتاب حضرت مدنیؒ کی سیاسی سوچ، ان کے طرزِ عمل، اور برصغیر کے مسلمانوں پر ان کے اثرات کا جامع مطالعہ پیش کرتی ہے۔ اس میں مختلف اہلِ علم کے مضامین جمع کیے گئے ہیں جو وقتاً فوقتاً حضرت مدنیؒ کی سیاسی فراست پر لکھے گئے۔ کتاب کے ذریعے نہ صرف مدنیؒ کے نظریات کا تاریخی پس منظر واضح ہوتا ہے بلکہ تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان کے تناظر میں ان کی دور اندیشی کا نقشہ بھی سامنے آتا ہے۔
اسی کتاب میں شامل مولانا سمیع الحقؒ کا مضمون سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد اکوڑہ خٹک سےشائع ہونے والے ماہنامہ الحق میں، مارچ ۱۹۷۲ء میں شائع ہوا۔ اس میں مولانا مدنیؒ کے اُن خدشات اور اندیشوں کا ذکر کیا گیا ہے جو انہوں نے تقسیمِ ہند کے موقع پر ظاہر کیے تھے۔ مولانا سمیع الحقؒ نے لکھا کہ ایک المناک صورتِ حال نے ملک کا شیرازہ جس بے دردی سے بکھیر دیا ہے، اس پر غور کرنے کے لیے ہمیں قیامِ پاکستان کے بنیادی تصورات پر دوبارہ نظر ڈالنی چاہیے۔ بعض راویوں کا کہنا ہے کہ برصغیر کی تاریخ اپنی اصل حقیقت کی طرف لوٹ رہی ہے۔ بہت سے اہلِ علم نے تسلیم کیا کہ شاید حضرت مدنیؒ کی وہ مخالفت دراصل ان کی مومنانہ بصیرت کا اظہار تھی، جو مستقبل میں پیش آنے والے خطرات کو بھانپ چکی تھی۔
مولانا لکھتے ہیں۔
“ایک المناک صورتحال نے ملک کا شیرازہ جس بے دردی سے بکھیر دیا ہے، اس پر نقد و احتساب کے ضمن میں پاکستان کے نقطۂ آغاز اور تشکیل سے لے کر آج تک کے حالات پر مختلف راویوں سے گفتگو ہو رہی ہے۔ اس میں یہ بھی زیرِ بحث لایا جا رہا ہے کہ کن خطوط اور بنیادوں پر ملک کی تقسیم یا تشکیل ہوئی۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ برصغیر کی تاریخ اپنی حقیقت کی طرف لوٹ رہی ہے؛ کچھ کنفیڈریشن کی باتیں کرتے ہیں، اور کچھ — دبی زبان سے سہی — مگر دل کے اندر سے اٹھنے والے خیالات کو دبا نہیں سکے کہ پاکستان کی موجودہ شکل میں قیامِ باِمخصوص، بنگال اور پنجاب کی تقسیم کی سختی سے مخالفت کرنے میں شاید مسلمانوں کے بعد بڑے رہنما، بالخصوص شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کا نقطۂ نظر غلط نہ تھا۔
اس سلسلے میں اگر سیاسی یا گروہی تعصبات سے الگ ہو کر حضرت شیخ الاسلام کے اندیشوں پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شاید ان کی قلندرانہ بصیرت کی دور رسیت کا کچھ احساس ہو جاتا ہے۔ خواہ اس موقف کی تصویب یا تقلید کا کام حالات اور واقعات کے ذمہ کیوں نہ ڈالا جائے، مگر حال کے آئینے میں ماضی کے کچھ نقوش ضرور نمایاں ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی صورت میں خلافتِ اسلامیہ اور اسلامی نظام کے قیام کے مقدس تصور میں کھو کر جن لوگوں نے اپنا سب کچھ اس راہ میں لٹا دیا، ان کی قربانیاں بعد ازاں بے زبانیِ تحسین کے لائق اور بارگاہِ ایزدی میں ان کے درجات کے مستحق ہیں — کہ انما الاعمال بالنیات۔ اگر کسی کی نیتوں میں کھوٹ تھا تو وبال اور سزا بھی ان کے نامۂ اعمال میں رقم ہو گی۔
اپنے وقت کے ان عظیم، خدا رسیدہ اور حقیقت شناس بزرگوں کی مومنانہ فراست، مسلسل آزمائشوں اور مصائب کے تحمل نے اس بات کی منہ بولتی شہادت دی کہ وہ مسلمانوں کے بدخواہ نہ تھے؛ نہ یہ لوگ ضمیرفروش یا خودغرض تھے اور نہ ہی مسلمانوں کے دشمن۔ ان کی اخلاصِ الٰہی اور پاکیزہ زندگی تاریخ کے بے رحم ہاتھوں کی دسترس سے ہمیشہ محفوظ رہے گی۔
ان کا ناقابلِ معافی جرم یہ تھا کہ وہ پاکستان میں خلافتِ اسلامی کے بلند بانگ دعووں کو فریب اور دھوکا سمجھتے تھے؛ وہ تقسیمِ ہند کو مسلمانوں کے مسائل کا صحیح حل نہیں مانتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس صورت میں ایک تہائی لوگ ایسی حالت میں رہ جائیں گے جنہیں کوئی زمین یا ٹھکانہ نہ دیا جا سکے گا اور ہندوستان میں تعلیمی، اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے ان کی حالت نہایت پسماندہ اور قابل رحم ہو جائے گی۔ اس کے برعکس، ان کے نزدیک جو فارمولا وہ پیش کر رہے تھے اس کے مطابق پورا ہندوستان ایک ایسا پاکستان بن سکتا تھا جس میں شرعی احکام مسلمانوں کے مکمل اور آزاد اختیار کے ذریعہ نافذ ہو سکیں۔
جمعیتِ علماِ اسلام (لاہور) نے پاکستان کی مجوزہ اسکیم پر ان بزرگوں نے نہایت خلوص سے ہر پہلو پر تنقیدی غور کیا اور اس کے سیاسی، اقتصادی، ملکی، قومی، تبلیغی اور خارجہ پالیسی کے اختلافی نکات پر اپنے خیالات پیش کیے۔ انہوں نے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور تحفظِ بقا کا ضامن فارمولا پیش کیا۔
ان حضرات نے واضح طور پر کہا کہ اگر پاکستان کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا تو وہ خطرناک جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ چنانچہ بنگال اور پنجاب کی تقسیم، اور ان صوبوں کی جغرافیائی اہمیت کے حوالے سے بھارت میں کچھ حصوں کے شامل ہونے اور بالخصوص گورداس پور تحصیل کی وجہ سے کشمیر پر بھارت کے تسلط کے خدشات پر انہوں نے سخت تنقید کی اور اسے پورے برِصغیر کے مسلمانوں کے لیے غیر یقینی مستقبل قرار دیا۔ ان حضرات کا خیال تھا کہ برطانوی پارلیمنٹ ہمیشہ اس جغرافیائی اتحاد کو ختم کرنے کی کوشش کرے گی؛ اس ضمن میں لالہ ڈِلنڈیسٹ اور لارڈ ڈِویل جیسے لوگوں کے واضح الفاظ ان کے سامنے رہے۔
ماؤنٹ بیٹن کے تاثرات نے بھی ان خیالات کی حرف بحرف تائید کی کہ انگریز سامراج اپنے تیار کردہ منصوبوں کے ذریعہ برصغیر کے مسلمانوں سے انتقام لینا چاہتا تھا۔ ان حضرات کے تمام خدشات اور اندیشوں کو غلط ثابت کرنے اور تمام غلطیوں کی تلافی صرف ایک صورت میں ممکن تھی: کہ پاکستان قائم ہوتے ہی یہاں اسلام کی مکمل حاکمیت قائم کر دی جاتی۔ مگر افسوس یہ ہوا کہ ایسا نہ کیا گیا؛ اور ہم نے وہ بلند بانگ دعوے ترک کر دیے جو برصغیر کے مسلمانوں میں بے مثال دینی جوش و خروش کا سبب بن کر انہیں خون و خاک میں دھکیلنے کا موجب بنے۔ یہ ایک طویل اور شرمناک کہانی ہے جو قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک کے طریقِ کار میں موجود ہے۔
حضرت مدنیؒ اور ان بزرگوں کے اخلاص کے لیے یہی کافی ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد، مخالفت کے باوجود، انہوں نے اپنے خطوط، بیانات، مکاتیب اور نجی پیغامات کے ذریعہ نہ صرف اسے تسلیم کرنے کی تلقین کی بلکہ یہاں رہنے والے تمام متعلقین سے کہا کہ اب اپنی مساعی اس ملک کی حفاظت، سالمیت اور یہاں اسلام کے غلبے پر مرکوز کر دیں۔ آج حضرت مدنی کے وابستگان — لاکھوں علما، مشائخ اور بے شمار معتقدین — ان کی ہدایت پر عمل پیرا ہو کر اپنا تن، من اور دھن اس ملک کی ترقی اور یہاں اسلام کے نفاذ میں لگا رہے ہیں۔
کچھ بھی کہا جائے، مگر حق و باطل کی تمیز اور معروفات کی اشاعت میں وہ لوگ جو “لا یخفون فی اللہ لوما لائم” کے مصداق بنے ہوتے ہیں، مشکل حالات میں حق کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ پاکستان، جس کی تعبیر “لا الہ الا اللہ” سے کی جاتی تھی، کیا شیخ الاسلام جیسے عارفِ کامل اور عبدِ کامل کو اللہ کی حاکمیت گوارا نہ تھی؟ اسی وجہ سے وہ تند و تیزی سے مخالفت کرتے رہے؛ مگر جن کی مومنانہ فراست ان دعووں کی حقیقت دیکھ رہی تھی، انہوں نے اس تعجب کو یوں بیان کیا:
بہت سے سادہ لوح مسلمانوں کو یہ دھوکا دیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں اسلامی حکومت بطورِ خلفائے راشدین قائم کی جائے گی۔ یہ خواب تو نہایت شیریں ہے — کاش ایسا ہوتا — اور اگر اس کے ذمہ داران لیگ اطمینان دلا دیں تو ہم اراکینِ جمعیت سب سے پہلے اس آواز پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہیں۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ وہ لوگ جن کا دین اور مذہب سے کم واسطہ ہے، وہ اسلامی صورتِ حال ہی سے ناواقف ہیں، پھر وہ اسلامی حکومت قائم کریں اور مذہب کے اصول و ضوابط پر بطورِ خلفائے راشدین عمل کریں؟
مدنی اور دیگر بزرگوں نے سوال اٹھایا کہ اگر ایسا ہو بھی گیا تو کیا اقلیتی صوبوں میں ایسا ردِ عمل نہ ہوگا کہ وہاں خالص ہندو راج قائم ہو جائے؟ کیا مسلم اقلیت والے صوبوں میں مذہبی آزادی برقرار رہے گی؟ اسی تناظر میں مولانا احمد سعید دہلویؒ جیسے معاصر علما نے اپنے دور کے سخت حملوں اور توہینوں کے باوجود کہا کہ پاکستان ایسا ہی ہوگا جہاں مذہب اور اہلِ مذہب کے ساتھ اس قسم کا دشوار سلوک ہو گا؛ اور جہاں علما کو رائے کی آزادی میسر نہ ہوگی۔ ان کی تنبیہات میں یہ خدشہ واضح تھا کہ پاکستان میں بعض مقامات پر فسق و فجور کے بازار قائم ہو سکتے ہیں اور دینِ الہٰی کا تذکرہ نظر انداز ہو جائے گا۔
ایک طرف یہ خدشات بارہا بیان کیے گئے، دوسری طرف پاکستان کے نام پر ان اندیشوں کی توجیح بھی کی جاتی رہی — کس کا قیاس درست نکلا، اس کا جواب ہماری قومی تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔ اگر آغاز سے ہی اسلامی نظریات، شعائرِ الہٰی، دینی اقدار اور اسلام کے نظامِ حکومت و معیشت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دیا جاتا تو شاید صورتِ حال مختلف ہوتی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سیاسی فیصلوں اور جغرافیائی تقسیم کے نتیجے میں جو مسائل پیدا ہوئے، ان کا سحر آسان نہ تھا۔
حضرت شیخ الاسلام اپنی باطنی فراست کی وجہ سے ان خطرات کو دیکھ کر متفکر رہے اور انہیں مسلمانوں کے لیے تباہ کن قرار دیا۔ انہوں نے کہا:
یہ صحیح ہے کہ پاکستان اور اسلامی حکومت کے نعرے بڑے دلفریب محسوس ہوتے ہیں۔ دو اسلامی حکومتوں کے قیام کا تصور عام مسلمانوں میں جوش پیدا کر دیتا ہے، اور مسلمانوں اور ہندوؤں میں اختلافات بھی ہیں؛ مگر اس کے باوجود یہ ہرگز درست نہیں کہ محض ہندوؤں کی تنگ نظری سے شاکی ہو کر ہم ایسی غلطی کریں جو مستقبل میں ہمارے لیے تباہ کن ثابت ہو۔ یہ بالکل واضح ہے کہ بنگال اور پنجاب کی حکومتیں اتنی طاقتور نہیں ہوں گی کہ وہ بیرونی سازشوں اور دراز دستیوں کا مقابلہ کر سکیں۔ اس لیے ممکن ہے کہ ہم ہندوؤں سے آزادی حاصل کر لیں، مگر اس مفروضہ آزادی کے بدلے میں غیر ملکی قوتوں کی ویسی ہی غلامی میں مبتلا ہو جائیں جیسی آج ہمارے سروں پر تھی؛ اگر ایسا ہوا تو یہ بدترین بدقسمتی ہوگی۔ لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ معاملات کو محض ہندو دشمنی کی عینک سے نہ دیکھیں بلکہ سنجیدگی سے فیصلہ کریں کہ آیا یہ ریاستیں خود ہمارے لیے باعثِ رحمت ثابت ہو سکیں گی یا نہیں، اور کیا یہ اپنے تحفظ کا مناسب بندوبست کر سکیں گی یا نہیں؟ اگر نہیں، تو بہتر ہے کہ مسلم اکثریت والے صوبے متحدہ ہند میں شامل رہ کر باقی اختیارات حاصل کر کے اندرونی اصلاحات کے ذریعے خود کو مضبوط بنائیں۔
یہی دلیل ہے کہ تاریخی تجربات نے ثابت کیا ہے کہ کمزور ریاستیں دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتیں؛ وہ جتنی بھی حق پر ہوں، مگر طاقت نہ رکھیں تو زندہ رہنے کا حق نہیں رکھتے۔ اسی تناظر میں شیخ الاسلام اور دیگر بزرگوں کی تشویش اور نصائح کا وزن سمجھا جانا چاہیے”۔
مولانا حسین احمد مدنیؒ کی فراست اور ان کے خدشات وقت کے ساتھ درست ثابت ہوئے۔ ان کی پیش بینی دراصل ایمان کی وہ روشنی تھی جو مستقبل کے پردے چاک کر دیتی ہے۔ ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوریؒ نے اپنی محققانہ بصیرت سے نہ صرف اس تاریخ کو محفوظ کیا بلکہ اہلِ علم کو یاد دلایا کہ دینی قیادت کی فکری گہرائی کس طرح قوموں کے انجام پر اثر ڈالتی ہے۔ آج جب ہم پاکستان کے سیاسی و فکری بحرانوں پر نظر ڈالتے ہیں تو مدنیؒ کے وہ الفاظ اور خدشات آئینے کی طرح واضح دکھائی دیتے ہیں — اور یہ کتاب اُن کی بصیرت کا ایک زندہ ثبوت ہے۔