Nankana Sahib stands as an emblem of faith, culture, and peace—where spirituality transcends borders and history heals. Sacred sites have long been centres of worship, culture, and emotional connection. For millions of Sikhs, Nankana Sahib—the birthplace of Guru Nanak Dev Ji—remains their most sacred site, symbolising religious tourism and interfaith harmony in Pakistan.
A Sacred Pilgrimage Across Borders
Every year, thousands of Sikh pilgrims from India, Canada, the United Kingdom, and other parts of the world travel to Pakistan with deep devotion. Their journey to Nankana Sahib is more than a physical voyage; it is an act of faith, nostalgia, and reconciliation. Among those pilgrims was Jarnail Singh Sekha, a celebrated Punjabi writer, journalist, and travelogue author, whose visit to this holy city inspired one of his most heartfelt works.

Born in 1934 in Punjab’s Moga district, Jarnail Singh Sekha became a leading literary figure with more than two dozen books. His writing shows his belief in revealing society’s strengths and weaknesses. When Sekha visited Pakistan for the World Punjabi Conference, he represented Punjabi literature and witnessed Nankana Sahib’s cultural and spiritual depth firsthand.
Journey to the Heart of Faith
Sekha’s travelogue, originally written in Gurmukhi and later translated into Urdu by Tariq Gujar under the title “Vancouver se Lyallpur Tak”, captures his impressions of Pakistan with remarkable sincerity. The Urdu translation preserved Punjabi idioms and expressions, retaining the cultural rhythm of the original text. In one memorable section, Sekha vividly describes his arrival at Nankana Sahib after passing through Sheikhupura — a city that, despite its historical significance, appeared dusty and unkempt compared to its spiritual counterpart.
As he entered Nankana Sahib, the heat was overwhelming, yet the sight of the majestic Gurdwara Janam Asthan instantly transformed exhaustion into awe. The beautifully maintained gardens, the serenity of the marble courtyards, and the fragrance of fresh flowers offered a soothing contrast to the chaos outside. The sacred architecture — adorned with golden domes and marble carvings — evoked both reverence and peace, symbolising how religious tourism can transform hardship into harmony.
The Spirit of Service and Shared Humanity
Within the Gurdwara, Sekha encountered a middle-aged sewadar (volunteer) who guided him with humility and warmth, reflecting the Sikh tradition of service and equality. The langar, or community kitchen, reminded him that at Nankana Sahib, all distinctions dissolve — caste, color, and creed lose meaning when everyone sits together to share a meal. Even a Muslim guard at the entrance greeted visitors with respect, embodying the spirit of Pakistan’s interfaith hospitality.
Outside, Sekha stood beneath the ancient “Shahidi Jand” tree, a poignant reminder of those Sikhs who were martyred centuries ago for their faith. That sacred site now symbolizes peace — where blood once flowed, pilgrims now pray. The transformation of that space from pain to prayer perfectly mirrors the essence of the title: from conflict to harmony.
Nankana Sahib as a Bridge of Faith
Nankana Sahib is not merely a city; it is a spiritual bridge connecting nations and hearts. For Pakistan, it represents religious tolerance and cultural inclusivity; for India, it remains a symbol of deep emotional and spiritual ties. The site reminds the world that faith, when freed from prejudice, becomes a force for unity rather than division.
Through his writings, Jarnail Singh Sekha offers readers a rare glimpse into how religious tourism can promote peace and mutual respect between once-divided communities. His narrative transforms a personal pilgrimage into a universal message of love, humility, and cultural understanding.
Conclusion: Where Faith Heals History
The story of Nankana Sahib is not only about the sanctity of a birthplace but about humanity’s capacity to evolve from conflict toward compassion. As pilgrims bow their heads in reverence at the Gurdwara Janam Asthan, they participate in a timeless ritual of hope — one that reaffirms the power of belief to heal the scars of history.
In the ever-expanding landscape of religious tourism, Nankana Sahib shines as a beacon of harmony, reminding us that true spirituality lies not in walls and domes but in the shared heartbeat of humanity.
If you’re interested in reading this book, click the link below for a free download.
https://drive.google.com/file/d/1CEiJ0E_MfSVlQrrV23Q0_EpvNjulhfKJ/view?usp=sharing
If you’d like to listen to this book in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.
You can also watch the same video on these social media platforms.
دنیا کے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے نزدیک ان کے مقدس و مذہبی مقامات نہ صرف روحانی آسودگی کا ذریعہ ہوتے ہیں بلکہ ان کی تہذیبی، تاریخی اور عقیدتی شناخت کا مرکز بھی سمجھے جاتے ہیں۔ یہ مقامات صدیوں پر محیط مذہبی تاریخ کی نشانیاں ہوتے ہیں، جن کی زیارت عقیدت مندوں کے ایمان کو تازگی بخشتی ہے اور انہیں اپنی مذہبی روایات سے عملی و جذباتی طور پر جوڑے رکھتی ہے۔ سکھ مذہب کے پیروکاروں کے لیے گورو نانک دیو جی کا جائے ولادت، ننکانہ صاحب، دنیا میں ان کی سب سے مقدس ترین منزل ہے۔ ہر سال لاکھوں سکھ مختلف ممالک خصوصاً بھارت سے پاکستان کا رخ کرتے ہیں اور عقیدت کے ساتھ یہاں حاضری دیتے ہیں۔ انہی یاتریوں میں ایک معروف پنجابی ادیب، صحافی اور سفر نگار جرنیل سنگھ سیکھا بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے اس سفر کے مشاہدات، تجربات اور تاثرات کو نہایت دلجمعی سے قلم بند کیا۔
جرنیل سنگھ سیکھا یکم اگست 1934ء کو ضلع موگا کے گاؤں سیکھا کلاں میں ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے ہی گاؤں سے حاصل کی اور بعد ازاں نجی طور پر سلسلۂ تعلیم جاری رکھتے ہوئے 1974ء میں ایم اے (پنجابی) مکمل کیا۔ وہ نصف صدی سے زائد عرصے سے پنجابی افسانہ، کہانی اور ناول نگاری میں سرگرم ہیں اور انہیں دنیائے ادب میں ایک معتبر مقام حاصل ہے۔ انہیں لکھنے کی تحریک اپنے چچا سے ملی جو انہیں باقاعدگی سے شاعری پڑھنے کو دیا کرتے تھے۔ سیکھا صاحب کے نزدیک معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں کو ادبی اظہار کے ذریعے آشکار کرنا ایک ادیب کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ وہ اب تک بیس سے زائد کتابیں تصنیف کر چکے ہیں اور ایک سنجیدہ قلم کار کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔
جرنیل سنگھ سیکھا کینیڈا میں مقیم ہیں اور ان کی پاکستان یاترا کے دوران ورلڈ پنجابی کانفرنس میں شرکت نے انہیں پنجاب کی ادبی و ثقافتی فضا کو قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ فیصل آباد (سابقہ لائل پور)، ڈجکوٹ، رسیانہ اور ننکانہ صاحب کے دوروں کے دوران انہوں نے مقامی شخصیات اور لکھاریوں سے ملاقاتیں کیں۔ اس سفر میں ان کے مشاہدات نے ان کے اندر چھپی ناول نگارانہ باریک بینی کو مزید ابھارا۔ انہوں نے کانفرنس کے تمام سیشنز کی روداد ایک ذمہ دار رپورٹر کی طرح درج کی اور جگہ جگہ ثقافتی میل جول، امن و محبت، عالمی بھائی چارے اور نفرت سے گریز جیسے موضوعات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔
یہ سفرنامہ اصل میں پنجابی زبان میں گورمکھی رسم الخط میں تحریر کیا گیا اور اس کا اردو ترجمہ طارق گجر نے “وینکوور سے لائل پور تک” کے نام سے کیا۔ مترجم نے اصل متن کا مزاج برقرار رکھنے کے لیے پنجابی محاورات، اصطلاحات اور مخصوص الفاظ کو بڑی احتیاط سے جوں کا توں رہنے دیا، جس سے نہ صرف ثقافتی رنگ برقرار رہا بلکہ اردو کے ذخیرۂ الفاظ میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔اسی اردوترجمے کا اقتباس آوازِاردونے سفرنامہ سیریز کی ایک ویڈیومیں پڑھ کرسنایاہے، جس میں جرنیل صاحب نےسکھوں کے مقدس مذہبی مقام ننکانہ صاحب کی حاضری کا احوال بیان کیاہے
اقتباس کا آغاز شیخوپورہ کی طرف روانگی سے ہوتاہے۔ ریسٹ ایریا میں مختصر توقف کے بعد مصنف اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دوبارہ روانہ ہوئے اور کچھ ہی دیر میں شیخوپورہ شہر میں داخل ہوئے۔ پرانا ضلعی ہیڈکوارٹر ہونے کے باوجود شہر کی مجموعی حالت صفائی کے اعتبار سے اچھی نہیں لگی؛ جگہ جگہ کچرا، بھیڑ بھاڑ اور بوسیدہ علاقے مشرقی پنجاب کے شہروں کی یاد تازہ کر رہے تھے۔ مصنف قیاس کرتے ہیں کہ شاید شہر کے بیرونی حصوں میں جدید کالونیاں ضرور بنی ہوں، جیسا کہ آج کل کا رجحان ہے، مگر جس حصے سے وہ گزرے وہاں کسی خوبصورت شہر کی جھلک محسوس نہ ہوئی۔
شہر سے آگے نکل کر سڑک کی تعمیر و توسیع کا سلسلہ جاری تھا، جس کی وجہ سے وہ آہستہ رفتار سے چلنے پر مجبور ہو گئے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر دیکھ کر ان کے ذہن میں یہ تاثر ابھرا کہ ملک ترقی کی ایک تیز رفتار راہ پر گامزن ہے۔ تھوڑی دور ایک چھوٹے قصبے سے بائیں جانب مڑ کر وہ ننکانہ صاحب کے راستے پر آ گئے اور ساڑھے بارہ بجے کے قریب شہر میں داخل ہوئے۔ شدید گرمی کے باوجود کار کا اے سی انہیں بچائے رکھتا رہا، لیکن جیسے ہی باہر نکلے سورج کی تپش نے چہرہ جھلسا دینا چاہا، مگر وہ حوصلہ رکھ کر آگے بڑھتے گئے۔
ننکانہ صاحب کا شہر چھوٹا سا محسوس ہوا، اور اسے دیکھ کر فوری طور پر اس کی مذہبی و تاریخی اہمیت کا احساس پیدا نہ ہوتا۔ گردوارہ جنم استھان جانے کے لیے مین بازار سے گزرنا پڑتا ہے، مگر بازار کی حالت بھی زیادہ پرکشش نہ تھی؛ سڑک ٹوٹی ہوئی، دکانیں سادہ اور خریدار نہ ہونے کے برابر۔ تاہم، جیسے ہی گردوارہ کے بلند اور خوبصورت ڈیوڑھی گیٹ کی طرف پہنچے تو منظر یکسر بدل گیا۔ محکمہ اوقاف کے ایک مسلمان پہریدار نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوتے ہی پھولوں سے سجی پھلواری اور منظم باغیچے نے دل و دماغ کو سکون بخشا۔ پھولوں کی ترتیب، سبز پودوں کا حسن اور کچھ پودوں پر چھائی سبز ترپال مصنف کو کسی تھکے مسافر کی اوڑھنی جیسی محسوس ہوئی۔
گردوارہ کا صحن وسیع اور پختگی کا مظہر تھا، دونوں اطراف میں ہال اور سرائے کے کمرے بنے ہوئے تھے۔ مزید آگے بڑھنے پر اندرونی ڈیوڑھی، کمروں کی قطاریں اور پرشکوہ عمارتیں کسی ماہر معمار کے نقشہ جات کی یاد دلاتی تھیں۔ یہاں انہیں ایک درمیانی عمر کے سکھ سیوادار ملے جنہوں نے عجلت کے باوجود متھا ٹیکنے اور بعد میں لنگر کے متعلق رہنمائی کی۔
اگلے حصے میں وہ جنم استھان کے سامنے پہنچے جہاں سنگِ مرمر، سنہری چھتر، گنبد اور لکھتیں دیدہ زیب تھیں۔ اندر داخل ہو کر مصنف اور ان کے ساتھی ادب کے ساتھ بیٹھے، پرشاد قبول کیا اور ماحول کی تقدیس محسوس کی۔ ایک نوّے سالہ بزرگ، ایک سر دار صاحب اور پاس بیٹھا ایک مسلمان بزرگ منظر کا حصہ تھے—مگر آخری شخصیت کی بے نیازی مصنف کے ذہن میں سوال چھوڑ گئی۔
مصنف نے گولک (چڑھاوے کی جگہ) کے بارے میں دریافت کیا تو جواب ملا کہ اوقاف کی نگرانی میں یہ کام باہر کیا جاتا ہے۔ کچھ عطیات انہوں نے اپنے اہلِ خانہ کی نیت سے بھارتی کرنسی کی صورت میں جمع کروائے اور یہ بھی سوچتے رہے کہ گولک گورو گرنتھ صاحب کے سامنے نہ رکھے جانے کا کیا سبب ہے۔
باہر نکل کر انہوں نے دربار صاحب کی پرکرمہ کی اور ایک قدیم ون کے درخت کے ساتھ کھڑا وہ مشہور “شہیدی جنڈ” دیکھا جہاں ایک گزرے زمانے میں سکھوں کو زندہ جلا کر شہید کیا گیا تھا۔ اس کے قریب ایک تختی پر اس کی تفصیل درج تھی۔ ساتھ ہی ایک وسیع دربار ہال تھا جہاں ہزاروں عقیدت مند بیٹھ کر کیرتن سن سکتے ہیں۔ وہیں گورو گوبند سنگھ جی کے پرگٹ ستھان کے لیے پالکی نمایاں تھی اور بتایا گیا کہ جگہ کم ہونے کے باعث اہم مذہبی اجتماعات اسی وسیع ہال میں ہوتے ہیں۔ ہال کے دائیں جانب یاتریوں کے لیے رہائشی کوٹھیاں بھی موجود تھیں جہاں ضرورت کے مطابق دو سے لے کر دس افراد تک قیام کر لیتے ہیں۔
اس اقتباس میں ننکانہ صاحب شہر کا عمومی ماحول، گردوارہ جنم استھان کا روحانی منظر، لنگر کی ثقافت، سیواداروں کا جذبہ، عقیدت مندوں کا رویّہ، تاریخی شہادتوں کے نشانات اور دربار ہال کی عظمت—سبھی کو نہایت براہِ راست اور جذباتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ منظرنگاری میں رنگ، حرارت، خوشبو اور روحانی سکون کی کیفیت محسوس کی جاسکتی ہے۔
مذہبی مقامات صرف تاریخی عمارتیں نہیں ہوتے بلکہ عقیدے، تہذیب، شناخت، روایت اور اجتماعیت کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ جرنیل سنگھ سیکھا جیسے ادیب جب ان مقامات کو مشاہدہ اور تحریر کا رنگ دیتے ہیں تو قارئین کو نہ صرف ثقافتی بصیرت ملتی ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کی طرف ذہن بھی مائل ہوتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذہبی سیاحت کا ایک نمایاں پل ننکانہ صاحب ہے جو نہ صرف روحانیت کا مرکز ہے بلکہ امن، بھائی چارے اور محبت کا پیغام بھی دیتا ہے۔ جرنیل سنگھ کا یہ سفرنامہ اسی پیغام کی ادبی توسیع ہے، جو سرحدوں کے پار انسانی دلوں کی قربت کا ذریعہ بنتا ہے