Introduction: The Timeless Philosophy of Death
Philosophy of Death has been deeply examined by Dr. Muhammad Amjad Abid and Ms. Uzma Yaseen in their insightful study of Akbar Allahabadi’s spiritual worldview. Their research explores how Akbar transforms the concept of death from a symbol of fear into a reflection of divine wisdom. In his poetry, death is not an end but a transition — a reminder of life’s fleeting nature and the eternal truth beyond it. The authors reveal how Akbar Allahabadi uses wit, irony, and faith to engage readers with the inevitability of death while inspiring spiritual awareness and inner strength.
Akbar Allahabadi’s Context and Vision
Akbar Allahabadi lived during a time of cultural upheaval in the Indian subcontinent. The impact of colonial modernity, the decline of traditional values, and the confusion between religion and material progress shaped his poetic thought. a call to rediscover the divine purpose behind human life.
In one of his reflections, Akbar observes that everything apart from the Supreme Being is nothing but illusion.
In essence, he reminds us that only the Divine is real; all else is a fleeting shadow of existence.
Through such verses, Akbar shifts the reader’s attention from worldly chaos to metaphysical truth, grounding his philosophy in faith and humility.
Religion as the Foundation of Life
For Akbar Allahabadi, life cannot be understood without religion. He believed that spiritual awareness defines the purpose of human existence.
He wrote, in essence:
The soul is on trial, and life is a course of learning — blessed is the one who takes the Quran as his source of wisdom.
This reflects his conviction that divine knowledge is the key to eternal success. The philosophy of death here transforms into a moral philosophy of life — one that encourages us to live with faith, humility, and accountability.
Death as Liberation, Not Fear
Unlike many poets who treat death as a tragedy, Akbar viewed it as liberation from worldly illusions.
He implies in one of his verses:
Why fear death if it frees us from the noise and burdens of the world?
For him, death is not an end but a peaceful pause — a gateway to truth. His philosophy of death thus rejects despair and invites courage. It teaches that a believer, rooted in faith, should see death not with terror but with trust in divine mercy.
Critique of Hypocrisy and False Fear
Akbar’s satire often targets those who praise bravery but avoid sacrifice. In a line rich with irony, he implies:
I fear death, yet I am drawn to it — perhaps my heart still doubts its own faith.
This self-reflective humor exposes the contradictions of human nature — the desire for paradise without struggle. Through his philosophy of death, Akbar not only philosophizes but also moralizes, urging sincerity and self-awareness.
The Spiritual Continuity of the Soul
One of the most profound aspects of Akbar Allahabadi’s poetry is his belief in the immortality of the soul.
He writes, in essence:
Bodies turn to dust, but who can say where the soul travels?
This recognition of spiritual continuity makes his philosophy of death deeply Sufi in nature. For Akbar, death dissolves the material shell but reveals the eternal essence of being. It is a reunion with the Divine — the moment when illusion gives way to reality.
Silence, Patience, and Moral Strength
Akbar also saw silence as a symbol of dignity and endurance. During times of oppression and moral decline, he believed that silence for the sake of truth carries spiritual strength.
He suggests:
When commanded to be silent, let your silence itself become testimony — for truth speaks even without words.
This quiet resistance links his philosophy of death to moral courage and spiritual resilience.
Conclusion: Death as the Awakening of Life
Akbar Allahabadi’s poetry asserts that death is fundamentally a moment of awakening—a revelation that invites us to discover life’s divine purpose and see beyond the transient world. His approach centers on mortality as the ultimate moment for spiritual clarity and preparation for what lies beyond.
As Akbar subtly implies:
Death is merely a pause for breath — a short rest before we continue our eternal walk.
Through his spiritual perspective, Akbar Allahabadi turns death into a mirror that reflects the true meaning of life. His words remind us that understanding mortality is not an act of sorrow, but the highest form of wisdom.
If you’re interested in reading this book, click the link below for a free download.
https://drive.google.com/file/d/18L2_iXaIL-4L2Ppi2euCDNwUw2FckgOv/view?usp=sharing
If you’d like to listen to this book in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.
You can also watch the same video on these social media platforms.
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ، کل ہماری باری ہے
زندگی کی سب سے بڑی سچائی اور ناقابلِ فرار حقیقت موت ہے، مگر انسان سب سے زیادہ اسی سے غافل رہتا ہے۔ جب کہ شعراء چونکہ معاشرے کا نہایت حساس طبقہ ہوتے ہیں اور انسانی جذبات کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں، اس لیے انہوں نے موت جیسے آفاقی موضوع کو اپنے کلام میں نہایت باریکی سے پیش کیا۔ اسی پس منظر میں ڈاکٹر محمد امجد عابد اور محترمہ عظمیٰ یاسین نے اپنے مشترکہ تحقیقی مقالے میں میر تقی میر، اسد اللہ خان غالب، الطاف حسین حالی اور اکبر الٰہ آبادی کے تصوراتِ مرگ پر نہایت وقیع بحث کی ہے۔ اس مقالے کے اسی حصے کو، جو اکبر الٰہ آبادی سے متعلق ہے، آوازِ اردو نے محفلِ سخن میں پیش کیا۔
اکبر الٰہ آبادی اردو شاعری کے وہ منفرد اور درخشاں شاعر ہیں جنہوں نے برصغیر کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی تغیرات کو گہری نظر سے دیکھا اور طنزیہ و مزاحیہ پیرائے میں پیش کیا۔ سید اکبر حسین کے نام سے پہچانے جانے والے اس شاعر نے تہذیبی بقا، فکری انحطاط، مغربی اثرات اور امتِ مسلمہ کی کمزوریوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ ان کے کلام میں حکمت، بصیرت، دین داری اور سماجی شعور کا امتزاج نمایاں ہے۔ اکبر کا طنز قہقہہ نہیں، سوچ عطا کرتا ہے، اور یہی ان کی فکری عظمت کا ثبوت ہے۔ آج بھی معاشرتی رویوں پر ان کا کلام آئینے کا کام دیتا ہے۔
اردو شعرا کے تصوراتِ مرگ نامی یہ مقالہ موت کے تصور کو برصغیر کی کلاسیکی شاعری میں فکری، جمالیاتی اور تہذیبی پس منظر کے ساتھ سمجھنے کی ایک علمی کوشش ہے۔ مصنفین نے میر کے ہاں موت کی بے ثباتی، غالب کے ہاں روحانی ارتقاء و نجات کا پہلو، حالی کے ہاں اخلاقی و اصلاحی فکر، اور اکبر کے کلام میں مذہبی و سماجی بیداری کے حوالے سے مرگ کے مفہوم کا نہایت سلیقے سے جائزہ لیا ہے۔ ہر شاعر کے فکری مزاج اور سماجی پس منظر کے تناظر میں موت کی مختلف جہات کو سامنے لایا گیا ہے۔
اکبر الٰہ آبادی کا تصورِمرگ
زندگی کے بارے میں اکبر کے فکر و نظر کے زاویے متعین کرنے میں سیاسی و سماجی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی عقائد کی کارفرمائی نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ عالمِ رنگ و بو میں انسان کی ہستی کا سوال ہو یا طرزِ زندگی کا انتخاب—اکبر مذہب کو اصلِ حیات قرار دیتے ہیں:
فقط اک ہستیِ اعلیٰ کا پرتَو دل میں پڑتا ہے
جو کچھ اس کے سوا ہے، وہم کی ہستی کا جھگڑا ہے
اکبر کے تصورِ حیات کی اصل ان کے تصورِ اللہ میں پنہاں ہے۔ زمانے کی نیرنگیوں نے انسان کو مختلف حصّوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ایسے حالات میں اکبر انسان کو وحدتِ حقیقی کے لیے ذاتِ باری کی طرف رجوع کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان کی ہستی کا ثبوت خالق و مالک ہی سے وابستہ ہے۔ وقت بھی خدا کی ہستی کا ظہور ہے، اور کائنات کی روح اسی کے امر سے قائم ہے۔ یہی نقطۂ نظر مغربی تہذیب کی خدا فراموشی پر تنقیدی ضرب بھی ہے۔ تجربات کے بعد اکبر اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ تکمیلِ حیات کے لیے قرآن کو لازم سمجھا جائے:
روح کا ہے امتحان اور زندگی کا کورس ہے
ہے مبارک وہ، سمجھ قرآن جس کا سورس ہے
دنیاوی ترقی کے سیلاب کے مقابل اکبر نے دین و دنیا میں توازن قائم کرنے پر زور دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس نہ دین رہا اور نہ دنیا، اور ان کی حالت پنجرے میں پھڑکتی مینا جیسی ہے۔ ایسے میں وہ دین کی عملی حکمت کے ذریعے قوت حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہیں:
پھٹا ہوں زندگی میں، سانس روکے رک نہیں سکتی
مگر دنیا کی خاطر میری گردن جھک نہیں سکتی
موت کے حوالے سے اکبر نے جو ڈکشن اپنائی ہے، اس میں عہدِ الست، نزع، ہوش، نسل اور دعا نمایاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عہدِ الست وہ مضبوط رسی ہے جسے تھام کر مسلمان اپنی بقا کی ضمانت حاصل کر سکتا ہے۔ اس عہد کو بھولنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم عالمِ نزع میں مبتلا ہو گئی ہے۔ ایسے میں دعا ہی وہ سہارا ہے جو اگلی منزل میں کام آئے گا۔
اکبر موت کو عقل کے پیمانے سے نہیں، بلکہ روحانی اقدار کے ذریعے سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک موت پر تعجب محض حماقت ہے۔ وہ موت سے بے خوف رہنے کی اثباتی جہات بیان کرتے ہیں:
اجل سے وہ ڈریں جینے کو جو اچھا سمجھتے ہیں
یہاں ہم چار دن کی زندگی کو کیا سمجھتے ہیں
اور مزید فرماتے ہیں:
موت سے کوئی نہ گھبرائے اگر یہ سمجھے
کہ یہ دنیا کے بکھیڑوں سے چھڑا دیتی ہے
وہ منافقانہ رویوں پر طنز کرتے ہیں کہ کچھ لوگ موت کے ثمرات تو چاہتے ہیں مگر جہاد کے نام سے گریزاں رہتے ہیں:
موت سے ڈرتا ہوں مگر موت کا شائق بھی ہوں
یعنی شبہ ہے کہ ایسے شوق کے لائق بھی ہوں
اکبر کے نزدیک موت زندگی کی پیچیدگیوں سے نجات کا ایک دروازہ ہے۔ ان کے مطابق دنیاوی اقتدار، غرور اور طاقت سب کا انجام ایک ہی ہے۔ اسی لیے یومِ احتساب کو یاد رکھنا ضروری ہے:
ہورہا ہے نفاذِ حکمِ فنا!
نہ مکیں اس سے بچتے ہیں نہ مکان
توپیں خود آ کے اب تو میداں میں
کہتی ہیں “کل من علیہا فان”
اکبر دنیا سے جدائی کو رنج نہیں سمجھتے، کیونکہ ان کے نزدیک موت محبوبِ حقیقی سے وصل کا ذریعہ ہے:
مشتاقِ حق کے واسطے نعمت کا ڈھیر ہے
بس زندگی حجاب ہے، مرنے کی دیر ہے
وہ موت میں ایک دل نشین راز کو محسوس کرتے ہیں:
ہے موت میں ضرور کوئی رازِ دل نشیں
سب کچھ کے بعد کچھ بھی نہیں، یہ تو کچھ نہیں
اسی ضمن میں خوش اعتقادی کا اظہار کرتے ہیں:
کسی کے مرنے سے یہ نہ سمجھو کہ جان واپس نہیں ملے گی
بعید شانِ کریم ہے کہ کسی کو کچھ دے کے چھین لینا
اکبر روح کے تسلسل اور بقا کے قائل ہیں۔ جسم خاک میں ملا دیے جاتے ہیں مگر روح کی حقیقت آنکھ سے اوجھل رہتی ہے:
جسم تو خاک میں مل جاتے ہوئے دیکھے ہیں
روح کیا جانے کدھر جاتی ہے، کیا ہوتی ہے
وہ “ان اللہ علیٰ کل شیء قدیر” کی صوفیانہ توضیح بھی پیش کرتے ہیں کہ وجود حقیقت میں علمِ باری کی سطح پر قائم ہے۔
ان کے ہاں سکوت اور خاموشی کے الفاظ کبھی بے بسی تو کبھی صبر، ضبط اور امن کے معنی دیتے ہیں۔ ریاستی جبر کے دور میں موت حق پرستی کا راستہ بن جاتی ہے:
حکم آیا خموشی کا، تو بس حشر تلک چپ
عظمت ترے پیغام کی ظاہر ہے اجل سے
آخر میں میر، غالب، حالی اور اکبر کے ہاں موت کا تصور اگرچہ مختلف اسالیب میں جلوہ گر ہے، مگر ایک مشترکہ حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے—موت میں زندگی کے آثار، سکون اور آگے بڑھنے کا امکان:
موت ہے ایک ماندگی کا وقفہ
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
اکبر الٰہ آبادی کا تصورِ مرگ محض موت کا بیان نہیں بلکہ زندگی کا کامل شعور ہے۔ وہ اس حقیقت کو نہ صرف آخرت کی کامیابی سے جوڑتے ہیں بلکہ اسے اجتماعی غفلت، تہذیبی زوال اور دینی بیداری کے تناظر میں بھی دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک موت خوف کا مقام نہیں، بلکہ ایک ایسی منزل ہے جس کے بعد حقیقی معنویت اور روحانی حقیقت آشکار ہوتی ہے۔ اسی لیے ان کا کلام آج بھی فکری رہنمائی فراہم کرتا ہے اور قاری کو یاد دلاتا ہے کہ زندگی کی حقیقی کامیابی اسی شعور میں مضمر ہے