Criticisms and Suggestions: Transformative Insights for Awaaz-e-Urdu

Introduction

Awaaz-e-Urdu is a unique initiative aimed at bringing Urdu literature to life through voiceovers and audio presentations. Like any public endeavor, it has not been without its fair share of criticisms and suggestions. This blog delves into the various feedback received and offers a thoughtful response to these observations.

Who Will Listen to Urdu Books?

One common query is: who is the audience for Urdu audiobooks? The reality is that Awaaz-e-Urdu caters to a niche but growing segment of listeners who prefer audio content due to their busy lifestyles or a desire to experience literature differently. Whether it’s enthusiasts of Urdu poetry, history buffs, or casual listeners seeking engaging content, the platform serves a diverse audience.

Addressing Personal Voice Concerns

Another recurring comment is, “Why only your voice?” This is a valid point, as varied voices can enhance the listening experience. Recognizing this, Awaaz-e-Urdu has already incorporated contributions from other voice artists, including two women and a young girl. However, financial constraints limit the ability to hire more artists at present. As the platform grows, the diversification of voices will remain a priority.

Feedback on Content and Presentation

An Analysis of Criticisms and Suggestions for Awaaz-e-Urdu: An Analysis of Criticisms and Suggestions for Awaaz-e-Urdu: Critics have raised concerns about the types of books selected and the simplicity of video presentations. Here are a few notable observations:

Choice of Books: Some listeners question the inclusion of specific historical or literary works. For instance, a video on Muhammad bin Qasim was criticized for its “unconventional” tone. Similarly, an audio presentation of Hazrat Ali’s letter to Malik al-Ashtar sparked debate over the informal translation style. Awaaz-e-Urdu maintains a strict policy of fidelity to the original text, refraining from unnecessary embellishments.

Visual Simplicity: Suggestions for enhancing visual appeal include adding subtitles and more engaging graphics. While minimalism ensures the focus remains on the audio, plans may include experiments with richer visuals, budget permitting.

Read my Urdu Blog on Facebook. https://www.facebook.com/share/p/14fLUWgvUe

Avoiding Certain Genres

An Analysis of Criticisms and Suggestions for Awaaz-e-Urdu: Not all genres are equally represented in Awaaz-e-Urdu. For instance, highly controversial or adult-oriented works like those of Sa`adat Hassan Manto have been deliberately avoided, as have romantic fiction pieces often featured in women’s digests. These exclusions stem from personal preferences and a desire to maintain a broad appeal.

Challenges with Poetry

An Analysis of Criticisms and Suggestions for Awaaz-e-Urdu: Despite requests, reciting poetry has proven challenging. The nuances and rhythm of Urdu poetry require a level of expertise that is currently beyond the scope of Awaaz-e-Urdu. Instead, poetic works are shared under the Poetry Session, ensuring they receive the respect and attention they deserve.

On Pronunciation and Corrections

An Analysis of Criticisms and Suggestions for Awaaz-e-Urdu: Listeners have occasionally pointed out mispronunciations, and these corrections are always welcomed. Constructive feedback is seen as an opportunity for growth, keeping the quality of content high and engaging.

Purpose and Mission

An Analysis of Criticisms and Suggestions for Awaaz-e-Urdu: Awaaz-e-Urdu’s core mission is not just entertainment but education—showcasing the richness of Urdu literature to a global audience. By providing free access to downloadable books and responding to individual requests for readings, it aims to revive interest in Urdu’s literary treasures.

Conclusion

An Analysis of Criticisms and Suggestions for Awaaz-e-Urdu: Criticism, when constructive, is a gift that fosters improvement. Awaaz-e-Urdu’s journey is one of continuous learning and adaptation. With an open-door policy for feedback, the platform aspires to address concerns while staying true to its essence: promoting the beauty of Urdu literature through the power of voice.

As the initiative grows, listener engagement and support will remain key. After all, the success of Awaaz-e-Urdu hinges not just on its content but on the community it serves and the shared love for the Urdu language.

Criticisms and Suggestions

اردوکاایک محاورہ ہے،گو کچھ بےادب سالگتاہے مگرحقیقت ہے کہ “جتنےمنہ ،اتنی باتیں”۔ جب کوئی چیزعام ہوجاتی ہےتواس کےبارے میں خیال آرائیاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ گھرمیں بہن بھائیوں کےدرمیان ہلکی پھلکی نوک جھوک کی خبر صرف ان کےوالدین کوہوتی ہے اوروہ بھی زیادہ نوٹس نہیں لیتے۔ مگر اللہ نہ کرے،یہی بہن بھائی اپنی ضد اورانا کےہاتھوں بڑے جھگڑوں میں ملوث ہوجائیں تودنیاکےلئے تماشابن جاتے ہیں۔ لوگ تبصرے کرتے ہیں۔ کوئی ایک فریق کوحق پر سمجھتاہے توکوئی اپنی سمجھ کےمطابق دوسرے کی حمایت کرتاہے۔

ملکی سیاست کابھی یہی حال ہے۔ لیڈروں کی حمایت یامخالفت میں عوام آپس میں لڑ پڑتے ہیں۔ اس موقع پر یہ محاورہ بولاجاتاہے۔ آوازِاردوکےساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ اکثریت کو توابھی تک یہی سمجھ نہیں آیا کہ اردوکتابیں سنے گاکون؟ اورقریبی احباب مجھ سے یہ سوال کررہےہیں کہ آپ اتنےعرصے سے محنت کررہے ہیں۔ آمدنی کتنی ہوئی؟۔ کچھ کاکہناہے کہ صرف آپ ہی کی آواز کیوں؟اس طرح تولوگ بور ہوجائیں گے۔ کتابوں کے مواد پربھی اعتراض ہوتا ہے،حالاں کہ اس سلسلے میں، میں بالکل بےقصور ہوں۔

یہ بھی سناگیاکہ آپ کی ویڈیودلچسپ نہیں ہوتی، دوتین تصویروں میں پوری ویڈیونمٹادیتے ہیں توکچھ کاکہناہے کہ اتنی محنت کی کیاضرورت ہے۔ ایک ہی تصویرپوری ویڈیومیں دے دو۔ بس کافی ہے۔ یہ مشورہ بھی آیا کہ آپ جوبول رہےہوتے ہیں، اگرساتھ ساتھ لکھاہوابھی آئے تومزا آجائے۔ بہت لوگ دیکھیں گے۔ بعض لوگ جو ایڈونچرکےشائق ہیں، چاہتے ہیں کہ ان کےمطلب کی کہانیاں ہی اپلوڈ ہوتی رہیں۔ بعض کا اصرار شاعری کےحوالےسے ہے کہ آپ وہ کیوں نہیں پڑھتے۔ میں اس مضمون میں ان سب باتوں کاجواب دینےکی کوشش کروں گا۔

مزید یہ کہ آوازِاردوکےدفاع میں کسی بھی پلیٹ فارم پر میں ہر قسم کےسوالوں کےجواب دینےکےلئے ہروقت تیارہوں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان سب باتیں کرنےوالوں میں کوئی ایک بھی ایسانہیں، جس نےآوازِاردوکی تمام ویڈیوزدیکھ رکھی ہوں۔ مگربخدا! مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں۔ میرے پاس ہر اعتراض اورمشورے کےلئےدروازہ کھلا ہے اورخندہ پیشانی سے جواب دینے اورمطمئن کرنےکی کوشش کرتاہوں۔

یہ مضمون لکھنےکاخیال یوں پیداہوا کہ پچھلے دنوں محمدبن قاسمؒ کےبارے میں ایک تاریخی ویڈیو پیش کی تھی، جس میں مصنف نےان کاتذکرہ کچھ بےادبی کےساتھ کیاتھا۔ بعدمیں، میں نےاس کتاب کاسرسری مطالعہ کیاتواندازہ ہواکہ مصنف نےکوئی غلط بیانی نہیں کی، نہ بےجاعقیدت سےکام لیا، بلکہ تاریخی حقائق کو جوں کاتوں بیان کردیا۔ تفصیلی بلاگ میں، جوسائٹ پرپیش کیاتھا۔اس بات کی وضاحت کردی ہے۔

اس پراوراس کےبعد ایک اورویڈیوپر، جوحضرت علیؓ کی جانب سے مالک اشترؒ کولکھےگئے خط پرمبنی تھی اور حضرت علیؓ نےاس میں گورنرمصر کےلئے “تو” کاصیغہ استعمال کیاتھا، اعتراض ہواکہ مصنفین کواس لہجے میں ترجمہ نہیں کرناچاہئے، بلکہ اردوترجمہ کرتے ہوئے اردوآداب کومدنظر رکھناچاہئے۔ توعرض یہ ہے کہ آوازِاردوکی شروع سےپالیسی رہی ہے کہ ایک لفظ بھی اپنی طرف سے بڑھانا یاگھٹانا نہیں۔

بلکہ جیسا کتاب میں لکھاہوا ہے۔ بالکل ویسے ہی پڑھنا ہے۔ اپنی طرف سے کوئی جملہ ویڈیومیں شامل نہیں کرنا۔ اِلّا یہ کہ پروفنگ/کتابت کی غلطی ہو۔ اسے توٹھیک کرنا مجبوری ہے کہ سماع خراشی نہ ہونےپائے۔

کوشش رہی ہےکہ ہرقسم کی کتاب سے پڑھاجائے۔ صرف دوقسم کےادب کو میں اب تک نظراندازکیاہے۔ ایک تومنٹوصاحب کےافسانے، حالاںکہ اردوادب میں ان کابڑامقام ہے، مگرایک تومجھ میں انہیں پڑھ کرسنانےکاحوصلہ نہیں، دوسرے بہت سےوائس اوورآرٹسٹ اس پرکام کرچکےہیں۔ بلکہ ایک صاحب تواپناپوراچینل ہی اس پرچلارہےہیں۔ اورمنٹوصاحب کانام صرف مثال دینے کےلئے لیاہے، ورنہ ہروہ تحریرجسےآپ اپنےبچوں کےساتھ بیٹھ کرنہ سن سکیں، میں نےاسے نظرانداز ہی کیاہے۔

دوری قسم خواتین کےڈائجسٹوں والاہے کہ اسے کبھی میں نےخود نہیں پڑھاتو اوروں کو کیسے سُناؤں۔ ہاں! کچھ خواتین یہ ادب پڑھ کراپنےچینلز پراپلوڈ کررہی ہیں۔مثلاً عمیرہ احمد کےناولز۔  جہاں تک شاعری سنانےکاسوال ہے توپہلےبھی عرض کیاتھا کہ بندہ شعرسنانے میں انصاف نہیں کرپاتا، ایک دومرتبہ کوشش کی مگرتجربہ اچھانہیں رہا۔ اس لئے اب شعراء اورشاعری سے متعلقہ مواد بزمِ سخن کےعنوان سےپیش کیاجاتاہے۔

ہرچینل کا ویڈیوپیش کرنےکا اپنااندازہوتاہے۔ وائس اوور چینلزمیں اصل چیز آوازہوتی ہے۔ اس کےٹھیک رکھنےکےلئے میں اپنی طرف سے بھرپور کوشش کرتاہوں۔ اورکئی احباب خصوصاً خواتین کومیں نےپیشکش بھی کی کہ اگر وہ اپنی اپنی آوازمیری ویڈیوز کےلئے دیناچاہیں، تواس پرویڈیوبنادی جائے گی ۔ اب تک دوخواتین اورایک بچی کی آوازپرمبنی ویڈیوزپیش کی جاچکی ہیں۔

اتناضرورہے کہ اس سلسلے میں، میں کسی قسم کی مالی ادائیگی کرنےسےقاصرہوں، کیوں کہ ابھی توآمدنی کاکوئی سلسلہ ہےہی نہیں۔ ایک بڑا اعتراض الفاظ کی ادائیگی پرکیاجاتاہے۔ اگرکسی لفظ کاصحیح تلفظ مجھے معلوم نہیں، اورنادانستگی میں اسے غلط پڑھ کیا تواحباب کی طرف سے تنبیہہ کی گئی کہ صحیح تلفظ اس طرح ہے۔ یقین کریں کہ ہمیشہ ایسی تصحیح نےمجھے سرشار کیاہے کہ ابھی میرے اساتذہ حیات ہیں، اورمیں نےتصحیح کرنےوالےاحباب سےآئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رکھنےکی گزارش کی ہےکہ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے اوربہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔

آوازِاردوکامقصد اردوسِکھانانہیں، بلکہ صرف یہ بتاناہے کہ کس کتاب میں،کس نے کیالکھاہے، پھر سائٹ پرمیں نےہرکتاب کوڈاؤن لوڈ کرنےکاآپشن بھی رکھ دیاہے اور یہ بھی کہ اگرآپ مزید بھی اس کتاب میں سےسننا چاہیں توآوازِاردوسے رابطہ کرلیں۔ بہرحال یہ اس بلاگ کاموضوع نہیں۔ بات صرف اتنی سی ہےکہ ایک مقصد کےتحت یہ کام شروع کیاگیاکہ اردوبولنےوالوں کوپتہ چلے کہ اردوکتابوں میں کیاکچھ خزانہ موجود ہے۔ ہرطبقے سے تعلق رکھنےوالوں کےلئے اپنی اپنی پسند کاسامان کتابوں میں موجود ہے۔

Leave a Comment