Tea: The Supreme Beverage – Surprising Benefits, Myths, and Realities

Tea, often hailed as the supreme beverage, holds a unique place in our daily lives. From morning routines to evening gatherings, tea is more than just a drink – it’s a cultural phenomenon, a conversation starter, and a symbol of hospitality. But what makes tea so special that it is considered “Ashraf al-Mashroobat” (the most honourable drink)? Let’s explore the wonders of tea, its social significance, its health implications, and its irreplaceable role in our lives.

Tea: The Supreme Beverage of All Times

Tea is undoubtedly the most cherished beverage worldwide. Be it political meetings, religious gatherings, or social celebrations, tea seamlessly fits into every occasion. Its significance goes beyond refreshment – it is a gesture of respect and warmth. In offices, serving tea is almost a protocol. The absence of tea during meetings can be seen as a lack of hospitality or even a breach of etiquette. Truly, tea is not just a drink but an experience.

The Cultural and Social Importance of Tea

Tea’s cultural significance is immense. It brings people together, smoothens conversations, and even resolves conflicts. From family get-togethers to formal visits, tea is the centrepiece of hospitality. In romantic scenarios, it plays a unique role too. Just imagine if Heer and Ranjha, the legendary lovers, were in today’s era – Heer would have carried a thermos of tea instead of traditional sweets! Such is the emotional connection people have with tea.

Tea: The Emotional Bond

Tea has the power to strengthen relationships. A simple cup of tea can resolve misunderstandings, ease tensions, and bring people closer. It’s not just about the drink but the emotions shared over it. As a poet beautifully expressed:

“Passing by me, they didn’t even ask for tea,

How do I believe they cried far away?”

Tea is an invitation for conversation and connection. It is often said that those who master the art of serving tea are the most successful in building social bonds.

Health Impacts: Blessing or Curse?

Tea, despite being the supreme beverage, has its share of controversies. On one hand, it is believed to be an energizer, stress reliever, and an aid for digestion. On the other, excessive tea consumption is linked to acidity, insomnia, and other health issues. Interestingly, in the past, tea was used as a painkiller by traditional healers. Today, doctors warn about its excessive use, stating that it can even damage the liver. Yet, tea lovers remain unfazed.

Some tea enthusiasts are so passionate that they seem to be born with a teaspoon of tea in their mouths! Even in financial difficulties, they prioritize tea over other necessities. Such is the addiction to this so-called supreme beverage.

A Historical Perspective

Interestingly, about a century ago, tea was not even a common household item. It was available only at herbalists’ shops as a medicinal drink. If tea had been as popular back then as it is now, we might have found poetry dedicated to Lipton and Supreme alongside verses about wine. Instead of wine houses, tea houses would have been the epicentres of social life. However, the fundamental difference would have remained – while wine induces intoxication, tea keeps one awake and alert.

Tea in Literature and Popular Culture

Had tea been prevalent during the classical era of poetry, legendary poets like Ghalib and Mir would have penned verses about it. Perhaps Ghalib would have confessed:

“Tea made me lazy,

Otherwise, I was a man of action.”

Even today, poets express their love for tea in unique ways. One famous couplet goes:

“We, the beggars, are royally satisfied,

We sit wherever tea is being brewed.”

This emotional connection makes tea the undisputed supreme beverage.

Tea’s Role in Modern Life

In today’s fast-paced world, tea is more than just a drink – it’s a reason to pause, reflect, and connect. It is a way to stay awake during late-night study sessions or long work hours. Some people even believe that tea is the whip for their nerves, keeping them active and alert.

Moreover, tea is an excellent excuse for social gatherings. Whether it’s discussing business deals, politics, or simply catching up with friends, tea is always the silent partner that fuels conversations.

The Future of Tea: A Global Phenomenon

While the world is concerned about water scarcity and potential conflicts over water resources, tea’s significance cannot be ignored. With the growing demand for tea worldwide, who knows – future conflicts might even revolve around tea trade and availability! The phrase “Storm in a teacup” might take on a literal meaning.

Conclusion: Why Tea Truly is the Supreme Beverage

Tea is undeniably the supreme beverage, not just for its taste but for its cultural, emotional, and social significance. It connects people, inspires poets, energizes workers, and comforts the weary. Whether you love it sweet or strong, with milk or without, tea is a companion that never disappoints.

Indeed, if humans are the noblest of creatures, then tea is truly the supreme beverage – the “Supreme Beverage.”

If you’d like to listen to any Urdu Content in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.

You can also watch the same video on these social media platforms.

اشرف المشروبات

جناب امجد محمودچشتی نے یہ مضمون 3 ستمبر،2024ء کو اپنی فیس بک وال پرشائع کیا۔ موصوف کےشگفتہ کالمز مختلف ویب سائٹس پر وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہتے ہیں، “چائے” کے موضوع پر آوازِ اردوپرتین ویڈیوزپیش کی جاچکی ہیں، جن میں سےایک یہ ہے۔

سبھی جانتے ہیں کہ کچھ پئے بغیر زندگی ممکن نہیں ۔ عام مشروب پانی ہے مگرفی زمانہ کوئی چیز چائے کی مثل اور ثانی نہیں ۔ چائے کو تمام ڈرنکس پہ ڈھیروں فضیلتیں حاصل ہیں ۔ یہ سیاسی،مذہبی اور سماجی تقریبات کی شان اور جزوِ لا ینفک ہے ۔ سرکاری اداروں میں تو جیسے ایس او پیز کاحصہ ہے کہ احباب اپنے فرائض کی انجام دہی کریں یا نہ کریں ، چائے کے ناغے کا تصور بھی نہیں ۔ کسی مہمان یا آفیسر کی آمد کی صورت میں چائے کا آ نابھی ناگزیر ہو جاتا ہے ۔ نہیں تو مہمان کی عزت افزائی اورآفیسر کے پروٹوکول پر حروف آنے کے اندیشے جنم لے سکتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ چائے کی بابت یاروں کا عقیدہ غالب کے آموں کی مثل ہے کہ چائے ہو، میٹھی ہو اور ڈھیر ساری ہو ۔ چائے کے ادوار میں تو ایسے ذیا بیطسی دوست بھی روبہ صحت نظر آتے ہیں جو اقاتِ کار میں شوگر اور امراضِ جگر ومعدہ کا شکار ہوتے ہیں ۔ جبکہ حکماء انہیں باور کرا چکے ہوتے ہیں کہ چائے کی پتی سے بندے کا جگر تک کٹ سکتا ہے ۔ بعض دوست تو چائے کے ایسے رسیا ہوتے ہیں جیسے چائے کا چمچہ منہ میں لئے پیدا ہوئے ہوں ۔ ایسے حضرات عُسرت میں بھی چائے کی کثرت کی حسرت سے مالا مال ہوتے ہیں ۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ سو سال قبل چائے ہماری خوراک کا حصہ ہرگز نہ تھی اور صرف اطِبّاء کے ہاں بطور درد کُش( پین کلر) دوا دستیاب ہوتی تھی ۔ شائد اسی لئے انگریزی میں چائے پینے کے عمل میں ،، ڈرنک ٹی ،، کی بجائے ٹیک ٹی استعمال ہوتا ہے ۔ اگر یہ پرانے دور میں اسی شان و شوکت سے پائی جاتی تو شعرو ادب کی دنیا میں ہ میں انگور کی بیٹی کے ساتھ ساتھ لپٹن و سپریم کے قصیدے بھی ملتے ۔ ساغرو مینا کے ہمراہ کیتلی و کپ کے اذکار چلتے اور اکثر بسیار نوش شعراء شوگر اور پیلیا کے باعث مرتے ۔ جہاں مئے خانوں کا ذکرِخیر ہوتا تو ساتھ ہی ٹی ہاءوسز اور چائے کے کھوکھوں کے گن بھی گائے جاتے مگرہم دیکھتے ہیں کہ آج ٹی ہاءوسز ، مئے خانوں کی جگہ لے چکے ہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مئے نوشی، مدہوشی کا موجب بنتی تھی جبکہ چائے سستی اور خمار کو بھگا کرکم خوابی کا باعث ہے ۔ میر کے دور میں چائے ہوتی توفرحت ِ طبع کےلئے کہہ اٹھتے، چائے کو چاہیئے دو منٹ اثر ہونے تک ، ۔

اب معلوم ہواکہ ساغر صدیقی اپنی تخلیقات چائے کی ایک پیالی کے عوض کیوں قربان کر دیتے تھے ۔ اس لئے کہ وہ شعرو سخن کے ساتھ ساتھ بلا کے چائے شناس بھی تھے ۔ چائے اگر کلاسیکل دور میں عام ہوتی تو شعراء کرام اپنے دور کے مفتیا ن اور زاہدانِ تنگ نظر کے عتاب کا شکار ہونے سے بھی محفوظ رہتے کیونکہ چائے انہیں خود مرغوب ہوتی ۔ مگر غالب اپنی سچ گوئی اور اعترافی اسلوب میں تب بھی مانتے،

چائے نے غالب نکما کر دیا                                               ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

لیکن اب ماننا ہوگا کہ آج زندگی چائے کے بغیر ادھوری اور بے کیف ہے ۔ اب یہ بات طے ہے کہ چائے اظہارِ محبت اور چاہت کا موءثر ترین ذریعہ ہے ۔ ہیر رانجھا اگر دور حاضر میں ہوتے تو ہیر چوری کے ہمراہ چائے کا تھرمس لئے رانجھے سے ملنے جاتی ۔ ناراضگیاں اور گلے شکوے ایک کپ چائے سے دور ہو سکتے ہیں اور دوست چائے کے ساتھ ساتھ غصہ بھی پی سکتے ہیں ۔ بقول شاعر

میرے پاس سے گزر کر مجھے چائے تک نہ پوچھی          ۔ ۔ میں یہ کیسے مان جاءوں کہ وہ دور جا کے روئے

اگر آپ چائے کے پینے پلانے کے گُر سے واقف ہیں تو بلا شبہ کامیاب انسان ہیں کیونکہ یہ حل المشکلات اور قاضی ا لحاجات بھی ثابت ہو تی ہے ۔ پی جانے والی چائے سے ہٹ کر چائے پانی کی مال افزاء اصطلاح تو سونے پہ سہاگہ کی تاثیر رکھتی ہے جس سے کام نہ نکلنے کی شرح کم ہوجاتی ہے ۔ رشتوں کے دیکھنے دکھانے کے عمل میں بھی چائے کا ہی کلیدی کردار کار فرما ہوتا ہے ۔ کسی کی ممی کسی کو چائے پہ بلاتی ہے تو کبھی کسی کے ممی پاپا چائے پہ بلائے جاتے ہےں ۔ علاوہ ازیں پھنسنے پھنسانے کی رومانوی سرگرمیاں بھی چائے کی مرہونِ منت ہیں ۔ رت جَگوں کےلئے تو ڈھیروں مفید ہے ۔ پڑھاکو سٹوڈنٹس رات کو نیند کے غلبوں سے بچنے کےلئے چائے کا ہی سہارا لیتے ہیں ۔ کچھ کی رائے میں چائے اس عدیم ا لفرصتی کے دور میں مل بیٹھنے اور پلٹ جھپٹ کر لہو گرم رکھنے کا بہانہ ہے ۔ بعض اسے اعصاب کا چابک کہتے ہیں جبکہ اہلِ دل کا عقیدہ ہے کہ چائے تو بس چائے ہی ہے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ اس چاء کو ڈالو ،چاہ میں جس چاء میں چاہ نہیں ۔ گویا ان حالات میں سٹارم اِن دی ٹی کپ کا محاورہ جوڑنا غلط نہ ہوگا ۔ کہنے کو تو دور حاضر کا اہم ایشو پانی ہے جس کی بنیاد پر اقوام عالم میں جنگیں متوقع ہیں مگر چائے کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں چائے کے پینے پلانے پہ بھی جھگڑے ہوں ۔ اس کی طلب ، رسد ،دستیابی اور تجارت کی بابت مقابلے ہوں ۔ اور ماضی کی کولڈ وارکی مانند چائے کے ا ایشوز پہ کڑک ،، وارم وار ز،، کی اصطلاح راءج ہوجائے اور ،، storm in a tea cup کی عملی تعبیربھی دیکھی جائے ۔ دیکھیں تو دنیا کے سب سے بڑے دو جنون ،سمارٹ فون اور چائے ہیں ۔ تاہم چائے کے کچھ المیے بھی ہیں جن میں خوش ذائقہ بسکٹوں کا چائے کی پیالی میں مفاجاتی انہدام اور کسی نا شناور مکھی کی ناکام تیراکی وغیرہ شامل ہیں ۔ اگر چائے نوشوں کو چائے کے مضر اثرات اور گرم مزاجی کا بتایا جائے تو فرماتے ہیں کہ چائے کے ہمراہ دیگر لوازمات یعنی بسکٹ وغیرہ کے تکلفات سے چائے معتدل ہو جاتی ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ دنیا کی عظیم نعمتوں میں چائے سرِفہرست ہے اور اس کے دانے دانے پہ پینے والے کا نام تک لکھا ہوا ہے ۔ بعض تو اس حوالے سے اندھی عقیدت رکھتے ہیں ،بقول شاعر

ہم فقیروں کی طبیعت بھی غنی ہوتی ہے

بیٹھ جاتے ہیں جہاں چائے بنی ہوتی ہے

تمنا ہے کہ چائے جنت میں بھی میسر ہو مگر تا حال یہ مژدہ کسی عالم نے سنایا نہیں ، پرہم نے بڑوں سے سنا ہے کہ جنت میں جس چیز کی خواہش ہو گی اس کا ذائقہ نصیب ہو گا ۔ گویا وہانں دودھ اور شہد کے ساتھ ساتھ چائے کی نہروں کی بھی حسب ِ خواہش فراوانی ہوگی اور وہ بھی حوروں کی میز بانی میں ۔ تو اب تسلیم کرنا ہی ہو گا کہ انسان اگر اشرف ا لمخلو قات ہے تو چائے اشرف ا لمشروبات ہے

Leave a Comment