Audiobooks Are Transforming the Publishing Industry
Audiobooks are revolutionizing the way people consume literature. The Frankfurt Book Fair, the world’s largest book event, has once again highlighted the rapid growth of audiobooks. According to event organizers, audiobook sales doubled between 2023 and 2024, a trend that continues to rise. Meanwhile, printed book sales are witnessing a decline at a similar rate.
Meeting with an Industry Expert
During the Karachi Book Fair 2024, I had the opportunity to meet Sarmad Khan, a passionate book lover and the founder of the Urdu Book World Facebook page. Introduced to me by Allama Abdul Sattar Asim of Al-Qalam Foundation, Sarmad Khan regularly attends international book fairs and closely follows industry trends.
A Thought-Provoking Discussion on Audiobook Copyrights
In a detailed discussion with renowned journalist and columnist Ashraf Sharif, I shared insights about AwazeUrdu and its efforts to promote audiobooks. While he appreciated the initiative, he raised concerns about potential copyright claims from publishers and authors. His argument was based on his extensive experience in the publishing industry.
Addressing Copyright Concerns
I presented several key points in response:
AwazeUrdu does not publish full audiobooks. Instead, we introduce books by reading selected excerpts, helping audiences understand the author’s style and content.
Providing audiobook narration as a service is legally viable. If a listener requests an audiobook and pays for the service, it is similar to other online services.
Authors appreciate our work. So far, AwazeUrdu has uploaded over 800 audiobook excerpts without any objections from authors or publishers. Many authors even request us to promote their work.
Copyright laws have limitations. Books published over 30 years ago or those by deceased authors often fall into the public domain, making their audiobooks legally permissible.
Fair revenue distribution is essential. If AwazeUrdu monetizes audiobooks in the future, rightful earnings should be shared with authors and publishers.

Insights from the Frankfurt Book Fair
Sarmad Khan shared an email invitation he received to attend the Frankfurt Book Fair. The event featured an interview with Cologne-based audiobook publisher Colin Hauer, who won last year’s award for the best audiobook. Hauer emphasized that listeners still prefer human narration over AI-generated voices. While AI can assist with technical aspects, it has yet to replace the warmth and expressiveness of a human voice.
The Future of Audiobooks: Human vs. AI Narration
This insight challenged my previous belief that AI would soon be able to narrate books as naturally as humans. If global publishers still rely on human narrators, then AI has a long way to go. However, a possible solution could be to offer both options on AwazeUrdu’s platform: a premium human-narrated version and a more affordable AI-generated audiobook.
Conclusion: The Future is Digital, But Human Touch Matters
The Frankfurt Book Fair reaffirms that audiobooks are shaping the future of reading. While AI narration is improving, human voice remains irreplaceable for now. Platforms like AwazeUrdu must continue innovating while ensuring fair rights for authors. As the publishing world transitions to digital, the love for books remains unchanged—only the medium of storytelling evolves.
فرینکفرٹ میں دنیاکاسب سےبڑا کتاب میلہ شروع ہورہاہے۔ اس میلے میں جہاں کاغذی کتابیں رکھی جاتی ہیں، وہیں صوتی کتابوں کاایک شعبہ بھی ہوتاہے۔ کیوں کہ صوتی کتاب کی فروخت کاحجم اس میلےکےمنتظمین کےمطابق 23ء سے24ء کےدوران دوگنا ہوچکاتھا اور اس میں مسلسل بڑھوتری ہورہی ہے۔جب کہ کاغذی کتاب کی فروخت میں اسی تناسب سے کمی آرہی ہے۔
مجھے جناب سرمدخان نے اس بارے میں اطلاع دی۔ ان سے میری ملاقات کراچی کتاب میلے میں ہوئی تھی، جس کےبارے میں اپنی وال پرپوسٹ بھی لگائی تھی۔ اور وعدہ کیاتھاکہ اس بارے میں تفصیلی بلاگ لکھوں گا۔ سرمدخان صاحب دبئی میں اردوبک ورلڈ کےنام سے فیس بک پیج چلارہے ہیں۔ کتابوں کےعاشق ہیں اوربین الاقوامی کتاب میلوں میں شرکت کرتے رہتے ہیں۔ میں چوں کہ “جہلم بک کارنر” کو فالو کرتاہوں توانہی کے توسط سے سرمد صاحب سے بھی واقفیت ہوئی۔ القلم فاؤنڈیشن والےجناب علامہ عبدالستارعاصم صاحب نےمیرا ان سے تعارف کرایا اورپھر فون پربات ہوئی۔ انہوں نےکراچی آمدپرملاقات کاوعدہ کیا۔
کراچی کےکتاب میلے(منعقدہ24ء)میں جناب کےساتھ ایک طویل خوشگواربیٹھک ہوئی، جس میں مشہورصحافی اورکالم نگارجناب اشرف شریف بھی شامل تھے۔ میں نے انہیں آوازِاردوکی کوششوں اورمقصد کےبارے میں تفصیلاً آگاہ کیا۔ انہوں نے اس کام کوبہت سراہا اور فرمایا کہ آنےوالادور اسی کاہے۔ وہ یہ جان کرحیران رہ گئے کہ اب تک آوازِاردوپر اب تک 800 سے زیادہ ویڈیوز اپلوڈہوچکی ہیں۔ مگر ایک جگہ میرا اوران کا اختلاف ہوا۔ ان کاکہنایہ تھاکہ جب ہم کسی پبلشر یامصنف کی کتاب کوآڈیوفارمیٹ مین تبدیل کریں گے تو ان کی جانب سے کاپی رائٹ کادعویٰ سامنےآسکتاہے اور اس سے آپ کےچینل کونقصان ہوگا۔ یہ بات وہ اپنےتجربے کی بناء پرکہہ رہےتھے۔ میں نے ان سے جواباًکچھ باتیں عرض کیں۔
پہلی بات یہ کہ آوازِاردوکسی بھی کتاب کومکمل نہیں سناتا۔ بلکہ صرف کتاب کاتعارف کراتاہے کہ فلاں مصنف نےفلاں کتاب میں یہ لکھاہے۔ تھوڑاسا اقتباس پڑھ کرسنادیاجاتاہے تاکہ سننے والوں کومصنف اور کتاب کےاسلوب کا اندازہ ہوجائے۔
دوسرے یہ کہ میں نے اس بارے میں کچھ قانونی مشاورت بھی کی ہے کہ اگر کوئی مجھے کہتاہے کہ آپ یہ کتاب مجھے پڑھ کرسنادیں، اوراس کےبدلے وہ مجھے کچھ ادائیگی کرتاہے تو اس میں کوئی قانونی رکاوٹ بھی نہیں۔ یہ ایک طرح کی سروس ہے، جوہم آن لائن دے رہے ہیں، جس طرح دیگر آن لائن سروسز دی جاتی ہیں۔ یہ کام غلط جب ہوتا، جب ہم کسی کتاب کو اپنےنام سے یا بغیرکسی حوالے کےآڈیوفارمیٹ میں منتقل کرکےسوشل میڈیاپر اپلوڈ کرتے۔
تیسری اوراہم بات یہ کہ اب تک میں نےجتنا بھی کام کیاہے(500سےزائد کتابوں کےاقتباس پڑھ کرسنائے ہیں)، کہیں سے بھی یہ اعتراض نہیں اٹھا کہ مصنف سےاجازت نہیں لی۔ بلکہ اکثرمصنفین نے اسے بہت پسند کیا اوراپنےحلقہءِاحباب میں شیئر بھی کیا کیوں کہ اس طریقہ کار سے کتاب کےبارے میں عوام کوآگہی ملتی ہےاوراسے مکمل پڑھنےکاشوق پیدا ہوتاہے۔ اکثر مصنفین اپنےمضامین آوازِاردوکو بھیجاکرتے ہیں کہ انہیں پڑھ کرسوشل میڈیا پراپلوڈ کیاجائے۔ (واضح رہےکہ آوازِاردواس کا ابھی تک کوئی معاوضہ نہیں لیتا)۔
چوتھی بات یہ کہ جب کسی مصنف کا انتقال ہوجائے یا کتاب کی اشاعت کوتیس سال گزرجائیں تو کاپی رائٹ ویسے ہی ختم ہوجاتاہے۔ اب اس کتاب کو کوئی بھی چھاپ سکتاہے، بشرطیکہ اس کےحقوق کسی زندہ فرد یا ادارے کےنام پر محفوظ نہ ہوں۔ جیسے “کلّیہ ودمنہ” کو کئی اداروں نےچھاپا۔ توآوازِاردوبھی اسے آڈیومیں تبدیل کرسکتاہے۔ اور کئی کتابیں،جن کےاقتباس آوازِاردوپرموجود ہیں، ایسے ہی مرحوم مصنفین کی تحریرکردہ ہیں۔
ان سب باتوں کےباوجود مجھے سرمدخان صاحب کی اس بات سے اتفاق ہے کہ اگر ہم ان آڈیوکتابوں سے مستقبل میں کوئی آمدنی حاصل کرتے ہیں تو حق داروں کو ان کاحق ضرور ملناچاہئے ۔ اسی لئے تو آوازِاردواتنی تگ ودو کررہاہے کہ اردومصنفین کو ان کا شایانِ شان مقام ملے۔ اردودان طبقے کوبھی پتہ چلے کہ اردوکتابوں میں کیاکچھ موجود ہے۔
اب آتے ہیں فرینکفرٹ کتاب میلے کی طرف! جس کاذکرشروع میں کیاتھا۔
سرمدخان صاحب نے ازراہِ عنایت خود کوملنےوالی میل مجھے فارورڈ کی،جس میں ان کےلئے اس میلے میں شرکت کادعوت نامہ تھا۔ ساتھ ہی گزشتہ سال بہترین آڈیوبک کا ایوارڈ جیتنےوالے جرمن آڈیو بُک پبلشر کولن ہاور کاانٹرویو بھی دیاگیاتھا، جس میں انہوں نے بتایا کہ “دنیابھر میں اب بھی سامعین آڈیوکتاب سننے کےلئے انسانی آواز کوہی پسندکرتے ہیں۔ اے۔آئی وائس اوور ابھی تک انسانی آواز کی متبادل نہیں۔ اگرچہ بہت سے تکنیکی امور میں اس سے مدد لی جاسکتی ہے”۔
یہ ایک اہم بات ہے۔ میں نےپچھلےبلاگ میں لکھاتھا کہ اے۔آئی بالکل انسانوں کی طرح پی۔ڈی۔ایف کتاب پڑھ کرسناسکے مگراس بات سے میری سوچ کارُخ تھوڑا ساتبدیل ہوا ہے۔ جب دوسری زبانوں والے ابھی تک اس معاملے میں انسانی آوازکےمحتاج ہیں ۔ہم توپھر ان کےمقلّد ہیں(کم ازکم اے۔آئی میں)۔ ہاں! مگر اس کو اس طرح کیاجاسکتاہے کہ ہم اپنی ویب سائٹ پر اسےبطورِآپشن رکھ دیں کہ اگرآپ انسانی آواز میں کتاب سنناچاہیں تو اس کی فیس الگ ہوگی اور چوں کہ اے۔آئی کامعیار انسانی آوازسے کم ہے تواس کی فیس بھی اسی حساب سے کم ہوگی۔ مگر فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آتا کہ آپ ضیاءمحی الدّین مرحوم کی آواز وانداز میں کوئی بھی کتاب سن سکیں۔
باقی آنےوالی کل کی خبر کسےہے؟ کہ
“محوِحیرت ہوں کہ دنیاکیاسےکیاہوجائےگی”