Begum Shaista Ikramullah: A Fearless Journey from Purdah to Parliament

Introduction

Begum Shaista Ikramullah played a crucial role in the Pakistan Movement, advocating for women’s rights and contributing significantly to literature and politics. Her autobiography, From Purdah to Parliament, provides valuable insights into her journey, struggles, and achievements.

Early Life and Education

Born on July 22, 1915, in Calcutta, Begum Shaista Ikramullah belonged to an influential family. She pursued higher education at Loreto College, Calcutta, and later earned a PhD from the University of London, becoming the first Indian woman to achieve this milestone. Her dissertation focused on Urdu novels and short stories, reflecting her deep passion for literature.

Role in the Pakistan Movement

During the struggle for Pakistan, Begum Shaista Ikramullah emerged as a vocal advocate for Muslim women. She actively participated in political meetings, supported women’s inclusion in national affairs, and worked alongside Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah to promote the cause of an independent Muslim state.

Parliamentary Contributions

As a member of Pakistan’s first legislative assembly, Begum Shaista Ikramullah played an instrumental role in shaping policies related to women’s rights, education, and social reforms. Despite initial challenges in understanding parliamentary procedures, she quickly adapted and became a strong voice for women’s issues. Her book details these experiences in the chapter titled Inside the Parliament.

Advocacy for Women’s Education

Throughout her career, Begum Shaista Ikramullah emphasized the importance of education for Muslim women. She believed that neglecting modern education after 1857 led to the community’s downfall. While she had high hopes for the 1947 All Pakistan Education Conference, she later expressed disappointment with the narrow-minded approach towards policy-making.

Balancing Personal and Professional Life

Beyond politics, she maintained a harmonious balance between family life and professional responsibilities. Married to diplomat Mohammad Ikramullah, she nurtured her family while actively contributing to national and international forums. Her daughter, Sarwat, later became a Jordanian princess, further adding to the richness of her extraordinary life.

Legacy and Influence

The story of Begum Shaista Ikramullah is one of resilience, determination, and progressive thought. Her autobiography not only sheds light on her struggles but also serves as an inspiration for future generations. She successfully navigated the transition from a traditional upbringing to becoming a leading voice in Pakistan’s political and literary spheres.

Conclusion

From challenging societal norms to shaping legislative policies, Begum Shaista Ikramullah left an indelible mark on Pakistan’s history. Her legacy continues to inspire those who seek progress, equality, and education for women in the Muslim world.

If you’re interested in reading this book, click the link below for a free download.

https://drive.google.com/file/d/1MCVucb07wopw4RSAph-XI-yI6RqsDL1L/view?usp=sharing

If you’d like to listen to this book in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.

You can also watch the same video on these social media platforms.

مسلمان خواتین نے تحریکِ پاکستان میں بھرپور کردار ادا کیا۔ انہوں نے نہ صرف سیاسی سطح پر اپنی آواز بلند کی بلکہ سماجی و ثقافتی محاذ پر بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ ان خواتین نے قائدِ اعظم کے ساتھ مل کر عوام کے حقوق کی پاسداری اور قومی مفادات کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی شراکت سے نہ صرف تحریکِ آزادی کو تقویت ملی بلکہ آنے والے وقت میں خواتین کے لیے سیاسی اور سماجی مواقع کے دروازے بھی کھلے۔ انہی نامورخواتین میں سے ایک بیگم شائستہ اکرام اللہ بھی تھیں۔

بیگم ڈاکٹرشائستہ اکرام اللہ سہروردی ایک نامور مصنفہ، سیاستدان اور سفارت کار تھیں۔ وہ 22 جولائی 1915ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے لوریٹو کالج کلکتہ سے تعلیم حاصل کی اور بعد میں لندن یونیورسٹی سے اردو ناول اور افسانے کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی، وہ اس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی ہندوستانی خاتون تھیں۔ تحریک پاکستان میں ان کا نمایاں کردار رہا اور وہ پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کی رکن بھی رہیں۔ 1932ء میں ان کی شادی معروف سفارت کار محمد اکرام اللہ سے ہوئی۔ شائستہ اکرام اللہ کی علمی اور ادبی خدمات اردو ادب کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔

ان کی خود نوشت “پردے سے پارلیمنٹ تک ” اردواورانگریزی زبانوں میں اوکسفرڈیونیورسٹی پریس سے شائع ہوئی، اس کتاب کا اردوایڈیشن محض انگریزی کا ترجمہ نہیں، بلکہ اسےانہوں نے اپنےشوہر کی وفات کےبعد الگ سےتحریرکیا اورکئی نئے ابواب شامل کئے ہیں۔ یہ کتاب 1954ء تک  ان کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔اس کتاب کا جو اقتباس اس ویڈیومیں پڑھاگیاہے، اس میں ان کے پارلیمانی تجربات، خواتین کے احترام کی روایات، اور تعلیم سے ان کی وابستگی کا ذکر ہے۔ اس باب کاعنوان ہی “پارلیمنٹ کےاندر” ہے۔

 وہ سات سال تک پارلیمنٹ کی رکن رہیں اور آئین سازی اور قانون سازی میں مصروف رہیں۔ ابتدا میں انہیں پارلیمانی امور کا تجربہ نہ تھا، مگر جلد ہی وہ معاملات سمجھ گئیں۔ خواتین کو اسمبلی میں عزت و احترام حاصل تھا، اور مسلم لیگ کے جلسوں میں بھی خواتین کے لیے خاص انتظامات کیے جاتے تھے۔

وہ اسمبلی میں واحد دو خواتین میں شامل تھیں اور انہیں خواتین کے مسائل پر آواز بلند کرنے کا موقع ملا۔ عوامی مسائل سننا اور ان پر کام کرنا ان کے روزمرہ فرائض میں شامل تھا، جس کی وجہ سے وہ بے حد مصروف رہتی تھیں۔ انہیں کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملا اور امریکہ میں تعلیمی مسائل پر تقریریں بھی کیں۔

انہوں نے گھریلو زندگی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے درمیان توازن برقرار رکھا اور زندگی کے نئے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالا۔ ان کی زیادہ تر تقاریر تعلیم اور اس کی اہمیت پر مرکوز رہیں۔ ان کے مطابق، مسلمانوں نے 1857 کے بعد جدید تعلیم کو نظرانداز کیا، جس کی وجہ سے وہ ترقی میں پیچھے رہ گئے اور ہندوؤں سے مقابلے میں کمزور پڑ گئے۔ انہیں 1947 میں منعقدہ آل پاکستان ایجوکیشن کانفرنس سے امیدیں وابستہ تھیں، لیکن بعد میں انہیں تعلیمی پالیسی سازی میں موجود تنگ نظری سے مایوسی ہوئی۔

ان کے پارلیمانی سال خواتین، تعلیم اور عوامی مسائل کے حل کی جدوجہد میں بسر ہوئے، اور وہ ملک کی ترقی کے لیے تعلیمی اصلاحات کو بنیادی حیثیت دیتی تھیں۔

انھوں نے ایک بھری پری زندگی گزاری۔ چاہنے والے باپ، جان نثار کرنے والے بھائی، بنگال کا ایک جما جمایا خاندان جس کی ساکھ پورے برصغیر میں تھی۔ میاں ملا تو چاہنے والا اور ایک بیٹا بنا آئی سی ایس افسر، خود انگلستان سے پی ایچ ڈی، بیٹی ثروت جسے وہ بٹلم کہتی تھیں جو اپنے ملک اردن میں شہزادی ہے۔ پریوں کی ایک کہانی جس میں کہیں کہیں بھوت پریت بھی آتے ہیں لیکن سب ہی آخر میں شکست پاتے ہیں۔ تو یہ ہے ہماری شائستہ کی کہانی

2 thoughts on “Begum Shaista Ikramullah: A Fearless Journey from Purdah to Parliament”

  1. مجھے یہ جان کر حیرت اور خوشی دونوں ہوئیں کہ اتنے بڑے طبقے کی نمائندہ خاتون اور دستور سازاسمبلی کی رکن کو بھی اپنے گھریلو اور خانگی مسائل سے بھرپور دلچسپی تھی۔
    شاید اس لئے کہ وہ دور بیشتر، خواتین کے گھروں تک محدود رہنے ہی کا تھا۔

    Reply

Leave a Comment