Blog Introduction
Unwanted advice is a social habit that many people develop without realizing the emotional impact it may have on others. Whether it’s a suggestion about buying a new car, altering one’s cooking style, or tailoring preferences, offering unsolicited opinions has unfortunately become part of our daily lives. This behaviour often leads to discomfort, frustration, and even embarrassment for the person receiving the advice.
A Common Habit with Serious Impact
This issue was thoughtfully highlighted by Aamir Hashim Khakwani in his column published in Daily Dunya News on November 5, 2016. He sheds light on a cultural tendency to interfere in others’ personal decisions by offering unwanted advice, often disguised as concern or helpfulness.
In one anecdote, a friend locked his car keys inside the vehicle. A local vendor helped unlock the car—a kind gesture indeed. But right after helping, the vendor offered unsolicited advice, saying, “Sir, you should get a bigger car. You’d look better in it.” Though meant as a compliment, the friend was understandably annoyed. Since he had just received help, he restrained himself, replying diplomatically, “Pray that God provides the means, and I shall.”
This story underlines how even helpful people sometimes overstep boundaries, offering unwanted advice at the wrong time.
Every day Interference in Personal Choices
Another scenario described in the column involves a neighbour who enters someone’s kitchen to borrow sugar, smells the food cooking, tastes it, and adds extra spices—without permission. Her justification: “Qorma only tastes good when it’s spicy.” The host is left speechless, wondering who understands her family’s preferences better—herself or her neighbor?
Similarly, a seamstress alters a dress design completely, adding lace despite the clear instruction not to. When questioned, she insists the lace will appeal to the customer’s husband, totally ignoring the original request.
These stories may seem humorous at first glance, but they reflect a deep-rooted social problem. The tendency to correct others without being asked not only invades personal space but also invalidates the preferences and decisions of the individual.
Why Is This So Common?
Unwanted advice is often given under the illusion of being helpful or superior in knowledge. People may not realize they are crossing emotional and personal boundaries. There is an unspoken expectation that their suggestion should be taken seriously—if not, offense is taken.
But every individual has their unique struggles, finances, and personal choices. Telling someone to buy a car, improve their dressing sense, or parent differently without invitation is insensitive and intrusive.
Learn to Ask Before You Advise
The key takeaway from Khakwani’s column is simple: Learn to give people space. Offer advice only when someone asks for it. If you think your suggestion is valuable, start by asking, “May I share something that helped me?” Respecting someone’s autonomy is far more impactful than forcing opinions on them.
Unwanted advice not only disrespects boundaries but can make the recipient feel inadequate or defensive. In the long run, it damages relationships rather than builds them.
Respect, Don’t Lecture
In one instance, the writer shares his experience with a shopkeeper who noticed his motorcycle and once again repeated the all-too-familiar suggestion: “Sir, it’s time you bought a car.” The author, frustrated, responded sarcastically, “Good thing you allowed it today; I was waiting for your permission.” The man later apologized after realizing how his words had crossed a line.
The message is clear—unwanted advice can be hurtful, no matter how well-intentioned it may seem. Unless you walk in someone else’s shoes, you cannot understand the burdens they carry.
Conclusion: Create a Culture of Respect
Let’s create a culture where people feel supported, not judged. If you feel the urge to offer advice, pause and consider: Was I asked? If not, maybe it’s better to just listen.
Whether it’s about vehicles, clothing, food, or life choices, respect others’ decisions. The world doesn’t need more unsolicited opinions. It needs more empathy and understanding.
If you’d like to listen to Any book in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.
You can also watch the same video on these social media platforms.
ایک دوسرے کو سپیس دینا سیکھیں
تین چار دن پہلے ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔باتوں باتوں میں دلچسپ قصہ انہوں نے سنایا۔ کہنے لگے کہ رات کو گھر جاتے ہوئے گھر کے قریب مارکیٹ رکا، دو چار چیزیں لیں۔ واپس آیا اور گاڑی کھولنے کیلئے چابی نکالنا چاہی تو جیب میں نہیں تھی۔ پریشانی سے ادھر ادھر دیکھا، پھر خیال آیا اور کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو چابیاں اندر لگی رہی گئیں۔ پریشان ہوا کہ اس وقت کہاں سے کوئی میکینک یا تالہ کھولنے والا پکڑا جائے۔ مارکیٹ میں آتا جاتا رہتا تھا، ایک ٹھیلے والا نوجوان جس سے کبھی کبھار کچھ لے لیتا تھا، ایک دو بار گپ شپ بھی ہوئی، وہ گزرا تو میرے چہرے پر پریشانی دیکھ کر رک گیا۔ اسے چابی کا بتایا،اس نے تھوڑی کوشش کی تو پچھلا دروازہ کھل گیا۔ اس نوجوان کا شکریہ ادا کیا ، رسمی سلام دعا ہوئی ، اچانک وہ بولا، سر جی !آپ بڑی گاڑی لے لیں، آپ اس میں زیادہ اچھے لگیں گے۔ میرے دوست کہنے لگے کہ اس کی اس بات نے غصہ تو بہت دلایا، مگر چونکہ اس نے مدد کی تھی ، اس لئے خون کا گھونٹ پی کر رہ گیا، دھیرے سے صرف اتنا کہا کہ یار تم دعا کرو، اللہ کوئی سبب بنا دے تو ضرور لے لوں گا۔ یہ واقعہ سنا کر وہی دوست کہنے لگے کہ معلوم نہیں ہمیں ہر معاملے میں اپنا مشورہ دینے، رائے ٹھونسنے کا کیوں شوق ہے، کسی کے پاس گاڑی ہے یا نہیں، چھوٹی ہے یا بڑی ، یہ اس کا اپنا مسئلہ ہے، کسی دوسرے کو کیا ضرورت ہے کہ بلا مانگے مشورہ دے ۔ اس دوست کی جھنجھلاہٹ نے مزا دیا، کیونکہ ایسے واقعات سے میں خود بھی کئی بار گزر چکا ہوں اور ہر بار میری بھی یہی کیفیت تھی۔
کچھ عرصہ قبل ٹی وی چینلز پر ایک دلچسپ اشتہار آتا تھا۔مختصر سی مگر دلچسپ کہانی تھی،کسی خاتون کے گھر میں ہمسایے کی لڑکی چینی یا کچھ اور مانگنے آتی ہے، وہ سیدھی کچن میں چلی جاتی ہے کہ ڈبے سے چینی نکال لوں۔ چولہے پر پر سالن بن رہا ہے ، اس کی خوشبو سونگھ کر وہ اس طرف متوجہ ہوئی، چمچ ڈال کر باہر نکالا ، چکھا اور پھر بغیر کسی سے پوچھے گرم مسالہ کا ڈبہ اٹھا کر کچھ مزید مسالہ ڈال دیا، یہ کہتے ہوئے کہ قورمہ سپائسی ہی مزا دیتا ہے۔ خاتون خانہ بیچاری ہکا بکا کھڑی اسے دیکھتی رہ جاتی ہے کہ اپنے گھر والوں کا مزاج میں جانتی ہوں یا تم۔ اسی اشتہار کی ایک اور کہانی میں ایک تیز طرارقسم کی درزن کو دکھایا گیا ، اسے محلے کی کوئی خاتون اپنا سوٹ سلائی کے لئے دے گئی اور اچھی طرح سمجھایا کہ کس طرح سوٹ بنانا ہے، لیس وغیرہ کی قطعی ضرورت نہیں۔ جب سوٹ لینے آئی تو لیس لگی ہوئی اور درزن نے الٹا لیکچر پلا دیا کہ تمہیں کیا معلوم کہ کیسے لباس پہنے جاتے ہیں، تم یہ سوٹ لے کر جائو، تمہارے خاوند کو یہ لیس اچھی لگے گی۔ وہ خاتون تلملاتی رہ گئی، جسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کے خاوند کو اس طرح کے لیس والے ملبوسات سے چڑ ہے ۔وہ اشتہار تو کسی ڈبے والے دودھ کا تھا ، مگر جو کہانیاں اس میں بیان کی گئیں، ان میں بلا کی سچائی تھی۔
ہمارے ہاں یہ عام مسئلہ ہے کہ دوسرے کو بلا مانگے مشورہ دے ڈالتے ہیں۔ مشورہ دے دینے پر ہی اکتفا نہیں بلکہ اس پر اصرار بھی کرتے ہیں کہ تم اس کو مان کیوں نہیں رہے۔ بھئی، اس کی اپنی زندگی ہے، اپنی مرضی سے گزارنے دو، جب وہ مشورہ مانگے تب ضرور دو، مگر ایسے مفت مشورے کی قدر بھی نہیں ہوتی اور بعض اوقات دوسرا آدمی اس سے چڑ بھی جاتا ہے ۔ میرے اپنے ساتھ کئی بار ایسا ہوا کہ ان لوگوں نے خواہ مخواہ کا ناصح بن کرمشورے دینے شروع کر دئیے، جن کا مجھ سے لینا دینا بھی نہیں ۔ جن دنوں موٹر سائیکل چلاتا تھا، آئے روز کوئی نہ کوئی دکان دار، دفتر کاچپڑاسی یا گیٹ کیپر اپنا قیمتی مشورہ ضرور دیتا کہ سر جی تسی ہن گڈ ی لے لو۔ بندہ پوچھے کہ لینی ہوگی تو تم سے مشورہ کروں گا۔ ایک بار ہماری گلی کی نکڑ کی دکان سے رات کو جاتے وقت انڈے ،ڈبل روٹی لینے رکا۔ اس نے چینج دینے کے بعد ایک تنقیدی نظر بائیک پر ڈالی اور پھر وہی مشورہ دہراہا۔ ایک لمحے کے لئے میرا بھی ناریل چٹخ گیا۔ اپنے لہجے پر قابو پاتے ہوئے اسے کہا،
یار اچھا ہو گیا کہ آج تم نے یہ بات کہہ دی، مجھے یہی ڈر تھا کہ تم اجازت نہیں دو گے، اب اجازت مل گئی تو ضرور لے لوں گا۔ وہ
ایک لمحے کے لئے ہکا بکا رہ گیا ، پھر احساس ہوا تو معذرت کرنے لگا۔ اسے سمجھایا کہ بھائی بائیک چلانے سے جو تکلیف اور بے آرامی مجھے ہوتی ہے، تمہیں تو نہیں ہوسکتی؟گرمی، سردی، بارش ، دُھند ان سب میں مصیبت مجھے رہتی ہے تو اگر اس کے باوجود گاڑی نہیں لے پا رہا تو کوئی وجہ ہوگی۔ تم کیوں چاہتے ہو کہ میرا بھرم ختم ہو اور تمہارے سامنے اپنی کم مائیگی کا اعتراف کروں۔ بات اس کی سمجھ میں آگئی، اس نے معذرت کی اور بولا کہ آئندہ میں اس کا ہر جگہ خیال رکھوں گا، یہ نکتہ کبھی سمجھ میں آیا ہی نہیں تھا۔
دراصل ہم لوگ بولنے سے پہلے شائد سوچتے نہیں یا پھر یہ خیال آتا ہے کہ ہم زیادہ ذہین اور یہ شخص غبی العقل ہے، تو جو سادہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی، وہ اسے بتائی جائے۔ یہ بات غلط ہے۔ہر آدمی کو اپنا اچھا برا زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے ، اس کی اپنی پرائیویٹ لائف ہے، جس کا احترام کرنا چاہیے اور اسے کچھ سپیس دی جائے ۔ اسی طرح کسی کا وزن زیادہ ہو، بال اڑنے لگیں، ہیر سٹائل مختلف کر لے، مونچھیں رکھ لے یا کلین شیو کرا لے، ہم لوگ اپنے تبصرے اور مفت مشورے دینے میں ایک لمحے کی کوتاہی نہیں کرتے۔ شائد ہمارے پاس وقت بہت زیادہ ہے اور یہ سمجھ نہیں آتا کہ اسے کس طرح گزارا جائے ۔ ورنہ کامن سینس کی بات ہے کہ اپنا چہرہ ہر آدمی دن میں تین چار بار تو آئینے میں دیکھتا ہی ہے، وہ اپنے
بارے میں زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اس پر کیا اچھا لگ رہا ہے ۔ اگر وہ مشورہ مانگے تو ضرور دیا جائے، پورے خلوص سے دیا جائے ، مگر اس کے بغیرایسا کرنے کی زحمت نہ فرمائی جائے تو عزت بڑھے گی ، کم نہیں ہوگی۔یہ بھی اکثر دیکھا گیا کہ کسی نے فیس بک پر اپنی پروفائل تصویر تبدیل کی۔ اب وہ بیچارہ اپنی کسی تازی تصویر کو دوستوں سے شیئر کرنا چاہ رہا ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ دوست کی خوشی میں خوش ہوں، اگر کچھ پسند نہیں تو چلو خاموش رہ جائیں، اچھا لگا تو اظہار کر دیں۔ اس کے بجائے انواع واقسام کے تبصرے شروع ہوجائیں گے۔ کسی کو چہرے پر غصہ نظر آئے گا تو کوئی میز کی بے ترتیبی کی طرف اشارہ کرے گا اورایسے کئی لوگ ہوں گے جو وزن کم کرنے کا مشورہ جڑ دیں گے۔ دلیل یہ ہوتی ہے کہ ایسا ہم نے اپنی محبت اور کیئر کی وجہ سے کیا۔ صاحبو! انسان کا سب سے بڑا ہمدرد وہ خو د ہے، زیادہ سے زیادہ اس کے بہن بھائیوں، لائف پارٹنر کو یہ حق دیا جا سکتا ہے، ہر ایک کو یہ ذمے داری نہیں سنبھالنی چاہیے۔ اگلے روز ایک گروپ میں چیٹ ہورہی تھی، انگلینڈ میں مقیم ایک دوست کہنے لگے کہ مغرب میں یہ روایت ہے کہ میں اپنی بیوی تک کو موٹاپے کے حوالے سے کوئی غیر محتاط جملہ نہیں کہہ سکتا ، نہیں کہتا۔ کہنے لگے کہ ان کی اہلیہ نومسلم ہیں، انہوں نے پاکستانی فیملیز سے ملنا اس لئے چھوڑ دیا ہے کہ ان کے بقول یہ عورتیں مجھ سے وہ سوال پوچھتی ہیں جو میری ماں نے کبھی نہیں پوچھے ۔ وجہ یہی ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی نجی زندگی کا احترام کرنا سکھایا ہی نہیں گیا، ہم دوسرے کو کچھ سپیس دینے کے قائل ہی نہیں۔ اس ایک عادت کو اپنا لینے سے اگرچہ ہمارے کئی سماجی مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔