Islamic Civilisation and Arabic Language: Timeless Glory, Hidden Crisis

Islamic civilisation has always stood as a unique blend of faith, culture, and knowledge. It reflects not only religious teachings but also intellectual and social values. At its very heart lies the Arabic language, which carried divine revelation and shaped the identity of Muslim societies over centuries. The relationship between language and culture runs deep and meaningful; it is the soul of a people. As Dr. Muhammad Ali Dhanadi explains in his renowned book Fi Fahm al-Hadharah al-Islamiyyah (translated into Urdu as Islamic Civilisation: A New Understanding), no civilisation can flourish without its language’s deep-rooted support. Arabic, in particular, became the mirror of Islamic thought and a unifying force.

Language as the Backbone of Civilization

Language is more than just words and grammar. It carries the spirit of its birthplace and embeds traditions, customs, and values in its structure. When people adopt a language, they absorb elements of the civilisation behind it. This is why scholars say language is both a tool of communication and a law of culture. For Islamic civilisation, Arabic was more than a medium of interaction. It was a marker of identity, unity, and intellectual growth.

The Eternal Bond Between Arabic and Islamic Civilisation

The Arabic language holds a timeless glory within Islamic history. It is the very language of the Qur’an, a living miracle that continues to guide Muslims worldwide. Early Muslim leaders recognised this truth. Caliph Umar ibn al-Khattab (RA) famously instructed his commanders: “Learn Arabic, for it is part of your religion.” He emphasised that mastering Arabic was essential not only for proper understanding of faith but also for strengthening communal ties.

Similarly, the great scholar Ibn Taymiyyah argued that Arabic is integral to Islam. In his view, neglecting the language would weaken both religious knowledge and cultural identity. The Qur’an itself declares:

“Indeed, We have sent it down as an Arabic Qur’an so that you may understand.” (Yusuf: 2)

Such declarations highlight that Islamic civilisation cannot be separated from Arabic. It is the language that preserves faith, transmits knowledge, and reflects the grandeur of Islamic culture.

The Hidden Crisis: Decline of Arabic Influence

Despite its timeless glory, Arabic faces a hidden crisis today. Historically, non-Arab Muslims adopted Arabic wholeheartedly, contributing to its spread and elevating it to the status of a global intellectual language. Persian scholars, Turkish rulers, and Indian thinkers all embraced Arabic as the foundation of Islamic scholarship. Yet, over time, many regions shifted back to their native tongues, often at the cost of weakening their link to classical Islamic thought.

Persia provides a striking example. Once a hub of Arabic sciences, it eventually revived Persian literature under figures like Sultan Mahmud Ghaznavi and the poet Ferdowsi. His monumental Shahnama gave Persian a new life, though it remained heavily infused with Arabic vocabulary. This return to native languages, while enriching local culture, marked a gradual distancing from Arabic as the unifying language of Islamic civilisation.

Why Arabic Still Matters

Unlike Latin in Christianity, which failed to become a universal spoken tongue, Arabic succeeded in uniting diverse nations under a single linguistic banner. Its resilience proves that it is not merely a sacred language but also a cultural treasure that shaped law, philosophy, science, and art across centuries. For Muslims today, reconnecting with Arabic means reconnecting with the essence of their civilization. It is the key to understanding scripture, reviving scholarly traditions, and rebuilding unity across the Muslim world.

A Treasure Worth Reviving

Dr. Dhanadi’s book, along with the insights of Ibn Taymiyyah and early Muslim leaders, reminds us that Islamic civilisation cannot be fully appreciated without acknowledging the central role of Arabic. While modern challenges and cultural shifts have led to a partial decline, the language’s timeless glory remains intact. The hidden crisis is real, but it also serves as a call to action: to strengthen Arabic learning, to preserve cultural identity, and to ensure that the heartbeat of Islamic civilisation continues to thrive.

Conclusion

The story of Islamic civilisation and the Arabic language is one of both timeless glory and hidden crisis. Arabic gave Islam its global voice, preserved its intellectual wealth, and bound its followers together. Yet neglecting this language risks diluting the very identity of Islamic culture. To secure the future, Muslims must once again invest in the language of revelation—a treasure that is eternal, powerful, and central to their civilisation.

If you’re interested in reading this book, click the link below for a free download.

https://drive.google.com/file/d/1N3c7FTG33lVuuEOqQcRYmxDFVTX2hYA5/view?usp=sharing

If you’d like to listen to this book in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.

زبان کسی بھی تہذیب کا بنیادی ستون ہوتی ہے۔ کوئی بھی زبان صرف الفاظ اور جملوں کا مجموعہ نہیں بلکہ اپنے پیدائشی علاقے کی تہذیبی روح کی عکاس ہوتی ہے۔ جس خطے میں وہ بولی جاتی ہے، وہاں کی تاریخ، رسوم و رواج اور فکری اقدار اسی زبان میں رچ بس جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زبان محض رابطے کا ذریعہ نہیں بلکہ تہذیب کا ضابطہ اور اس کی پہچان بن جاتی ہے۔ ڈاکٹر محمد علی ضنادی نے اپنی معروف کتاب فی فہم الحضارۃ الاسلامیہ (اردو ترجمہ: اسلامی تہذیب کی تفہیمِ جدید) میں اس حقیقت پر نہایت عمدہ روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ اسلامی تہذیب اور عربی زبان کے درمیان کس قدر گہرا اور امتیازی تعلق موجود ہے۔

ڈاکٹر محمد علی ضنادی معاصر عرب مفکر اور محقق ہیں جنہوں نے اسلامی تہذیب، فکر اور معاصر مسائل پر گہرائی کے ساتھ قلم اٹھایا ہے۔ وہ عرب دنیا کے ان اہلِ علم میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے تہذیبِ اسلامی کو محض تاریخی ورثہ نہیں بلکہ ایک زندہ اور متحرک حقیقت کے طور پر پیش کیا۔ ان کی تحریروں میں اصولی اور فکری استدلال نمایاں ہے اور وہ اسلامی تہذیب کے بنیادی تصورات، اس کے امتیازات اور جدید چیلنجز کے مقابلے میں اس کے کردار پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کی معروف کتاب فی فہم الحضارۃ الاسلامیہ (جس کا اردو ترجمہ اسلامی تہذیب کی تفہیمِ جدید کے عنوان سے شائع ہوا) میں انہوں نے اسلامی تہذیب کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر ضنادی کی علمی کاوشیں اسلامی فکر و تہذیب کے طلبہ اور محققین کے لیے ایک قیمتی سرمایہ سمجھی جاتی ہیں۔

کتاب اسلامی تہذیب کی تفہیمِ جدید دراصل ڈاکٹر محمد علی ضنادی کی عربی تصنیف فی فہم الحضارۃ الاسلامیہ کا اردو ترجمہ ہے جسے محمد سعود عالم قاسمی نے مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی، اس کے فکری و اخلاقی عناصر اور عصرِ حاضر کے چیلنجز کے تناظر میں نہایت اہم بحث پیش کرتی ہے۔ مصنف نے تہذیب کے مفہوم، زبان کے کردار، ریاست و نظام کی تشکیل اور اسلامی تہذیب کے امتیازات کو اصولی اور فکری انداز میں بیان کیا ہے، اور ساتھ ہی جدید دور میں اسلام کو درپیش فکری و تہذیبی مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ کتاب کی سب سے بڑی خوبی اس کی جامعیت، اختصار اور منطقی ترتیب ہے جس سے قاری کو واضح رہنمائی ملتی ہے۔ ترجمہ مجموعی طور پر رواں اور بامعنی ہے، اگرچہ بعض مقامات پر ادبی روانی میں کمی محسوس ہوتی ہے اور مثالوں کی کمی کے باعث بحث کچھ نظری معلوم ہوتی ہے۔ اس کے باوجود یہ کتاب اردو داں طبقے کے لیے اسلامی تہذیب کے بنیادی خدوخال اور اس کے فکری ڈھانچے کو سمجھنے میں نہایت مددگار ہے اور اسلامی تہذیب کے فہم کے لیے ایک مؤثر نقطۂ آغاز قرار دی جا سکتی ہے۔

کتاب کے ایک اہم باب خالص زبان تہذیب کا ایک جزو ہے کو آوازِ اردو نے اپنی ویڈیو میں پڑھ کر سنایا ہے۔ اس باب میں زبان اور تہذیب کے باہمی تعلق پر مفصل گفتگو ملتی ہے:

تہذیب کے ضوابط میں سے ایک اہم ضابطہ زبان ہے۔ جس قدر کوئی زبان اپنی بنیاد میں مستحکم اور ٹھوس ہو گی، اسی قدر وہ اپنی تہذیب کو نمایاں اور ممتاز کر سکے گی۔ زبان محض قوموں کے درمیان تخاطب و تعارف کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ فکر و ثقافت کی تشکیل کا بنیادی وسیلہ بھی ہے۔

جب بھی کوئی زبان دوسری قوم تک منتقل ہوتی ہے تو اس کے ساتھ اس قوم کی تہذیب، عادات و رسوم اور زندگی سے متعلق تصورات بھی منتقل ہو جاتے ہیں۔ اس عمل کو ہی ثقافتی جنگ کہا جاتا ہے۔ زبان اس وقت تہذیب کا مکمل ضابطہ بن جاتی ہے جب وہ ہمہ گیر اور تخلیقی تصورات کو اپنے اندر سمو لے، یا جیسا کہ اسلامی تہذیب میں قرآن مجید کی صورت میں ہوا کہ زبان ایک ابدی معجزہ کا ذریعہ بن گئی۔

اسی وجہ سے اسلامی تہذیب اور عربی زبان کے درمیان بنیادی اور امتیازی تعلق ہے۔ عربی اسلام کی زبان ہے، وہ قالب ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا اور وہ زبان ہے جس کا سیکھنا اور اس میں مہارت پیدا کرنا مسلمانوں کے لیے نہایت اہم فریضہ ہے۔ چنانچہ ابتدائی دور کے مسلمانوں نے اس بات کا اہتمام کیا کہ اسلام قبول کرنے والی قوموں کو دین کی تعلیم عربی زبان میں دی جائے، تاکہ دین کے ساتھ ساتھ زبان بھی ان کے دلوں میں راسخ ہو جائے۔

ابن تیمیہ اور عربی زبان
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ ابتدائی مسلمان جب شام، عراق، خراسان اور مغرب کے مختلف علاقوں میں پہنچے تو وہاں کی مقامی زبانوں (رومی، فارسی وغیرہ) پر عربی کو رائج کیا۔ یہاں تک کہ ان علاقوں کے عوام بھی عربی کے عادی ہو گئے۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے بھی کمانڈروں کو وصیت کی تھی کہ قرآن کو عام کرو، عربی زبان میں مہارت حاصل کرو اور دین کی تفہیم کو پختہ بناؤ۔
حضرت عمرؓ کا یہ قول بھی منقول ہے:
عربی زبان سیکھو، کیونکہ وہ دین کا جز ہے۔ اور فرائض کی تعلیم حاصل کرو، کیونکہ وہ تمہارے دین کا حصہ ہے۔
ابن تیمیہ کے نزدیک عربی زبان دین کا حصہ ہے اور اس کی معرفت واجب ہے، کیونکہ کتاب و سنت کا فہم عربی زبان کے بغیر ممکن نہیں۔ اسلام کا جلال و جمال اور اس کی رعنائی اسی زبان میں جلوہ گر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کے لیے منتخب کیا:
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (یوسف: 2)
ہم نے اسے قرآن بنا کر عربی زبان میں نازل کیا تاکہ تم اسے اچھی طرح سمجھ سکو۔
اسی بنا پر ابن تیمیہ عربی زبان کو چھوڑنے اور نہ سیکھنے کو دینی اعتبار سے مکروہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک عربی زبان عقل، عادات، اخلاق اور تہذیب پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ زبان قوموں کی پہچان کا ایک اہم شعار ہے، اور اسلام و اہلِ اسلام کا شعار عربی زبان ہے۔

غیرعرب مسلمانوں کی عربی میں مہارت
غیر عرب مسلمانوں نے بھی عربی کی اہمیت کو شدت سے محسوس کیا۔ انہوں نے کسی قسم کی کمتری کے بغیر عربی زبان اپنائی اور اسے اپنے علمی و دینی اداروں میں اعلیٰ مقام دیا۔ یہاں تک کہ عربی ایک عالمی زبان کی حیثیت اختیار کر گئی۔ تاہم بعض علاقوں میں وقت کے ساتھ ساتھ اپنی مقامی زبانوں کی طرف رجحان بھی پیدا ہوا۔ مثال کے طور پر ایران، جو کبھی عربی علوم و فنون کا مرکز تھا، رفتہ رفتہ فارسی کی طرف لوٹ آیا۔ فارسی کے احیاء میں سلطان محمود غزنوی اور فردوسی جیسے شخصیات نے اہم کردار ادا کیا۔ فردوسی نے “شاہنامہ” لکھ کر فارسی ادب کو نئی زندگی دی، اگرچہ اس کے الفاظ کا بڑا حصہ عربی سے ماخوذ تھا۔
یہ رجحان باوجود اس کے کہ بعض قوموں کو اپنی لسانی شناخت کی طرف کھینچ لے گیا، عربی زبان اسلامی تہذیب کی زبان کے طور پر برقرار رہی۔ اس کے برعکس مسیحیت میں سریانی یا لاطینی زبان کبھی اس طرح عوامی سطح پر نہیں جم سکیں جس طرح عربی نے اپنی جگہ بنائی۔ تاریخ گواہ ہے کہ عربی تنہا وہ زبان ہے جو ان قوموں کی زبان بھی بن سکتی ہے جو ابتدا میں اسے نہیں بولتی تھیں۔ اسلامی تہذیب کے تحفظ اور اس کے فروغ کے لیے عربی ہمیشہ ایک بنیادی حیثیت رکھے گی، کیونکہ یہی وہ زبان ہے جس میں اسلام کا پیغام ابدی طور پر محفوظ ہے۔

یوں یہ باب نہ صرف زبان اور تہذیب کے باہمی تعلق کو واضح کرتا ہے بلکہ اسلامی تہذیب میں عربی زبان کی بنیادی اور لازمی حیثیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ ڈاکٹر ضنادی کی پوری کتاب کا مرکزی پیغام یہی ہے کہ اسلامی تہذیب کو سمجھنے کے لیے زبان، فکر اور ایمان کے گہرے رشتے کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہی پہلو اس کتاب کو اور آوازِ اردو کے اس مطالعے کو خاص طور پر قابلِ قدر بنا دیتا ہے۔

Leave a Comment