Horse Riding: From Struggle to Self-Discovery

Horse Riding and the Longing Buried Within

Horse Riding is more than a sport; it symbolises the hidden desires within the human subconscious. Suppressed longings can reemerge when circumstances change, offering not just fulfilment but also healing and energy to the soul.

This inner phenomenon is given a humorous and deeply human portrayal in Colonel (R) Ashfaq Hussain’s famous book, Gentleman Alhamdulillah, particularly in its delightful chapter, “Rang Ruliyan.”

A Soldier with a Forgotten Dream

Colonel (R) Ashfaq Hussain, a retired officer of the Pakistan Army, is renowned for his witty yet profound reflections on military life. His Gentleman series stands as a masterpiece in Urdu humour and self-reflection, blending strict army discipline with bursts of human warmth and laughter.

In Gentleman Alhamdulillah, Hussain describes how Horse Riding, once a passion in his cadet days, resurfaces during his posting in Northern Pakistan. His candid, humorous attempts to reconnect highlight the journey of rediscovering a suppressed desire.

Laughter, Struggle, and Self-Discovery

While stationed in the breathtaking region of Astore, Colonel Ashfaq found himself surrounded by mountains, rivers, and the stillness of nature. Amid this beauty, his dormant wish to ride horses resurfaced. He humorously recalls the early days of his training at PMA, where the horses were treated like pampered nobles — given holidays, warm blankets, and gentle care.

But these “noble” animals often refused to cooperate with young cadets. The author’s lively description of being dragged, thrown, or humiliated by stubborn horses paints a picture both hilarious and symbolic. His remark — “We didn’t leave the horse; it left us!” — captures the perfect fusion of wit and wisdom.

Through Horse Riding, Hussain illustrates how giving space to long-buried desires can disrupt our sense of control, but with patience and persistence, balance—and a sense of self—can be restored.

Humor as a Mirror to Human Nature

What makes Ashfaq Hussain’s work timeless is his ability to find humor in human psychology. His narration shows that even a disciplined soldier harbors within him a playful, curious, and sometimes rebellious self. Horse Riding thus becomes more than a physical act — it turns into a psychological journey of confronting fear, failure, and fulfillment.

When the author finally masters his horses, he concludes that reconciliation in life doesn’t come from pleading or softness alone — sometimes, strength and control are equally necessary. This realization reflects not just military philosophy but universal human truth.

Beyond the Stable: Lessons from a Forgotten Passion

Colonel Ashfaq’s adventures on horseback go beyond comic storytelling. They highlight how forgotten dreams, once revived, can restore one’s sense of vitality and joy. Horse Riding here becomes a metaphor for regaining control over one’s life — transforming frustration into fulfillment.

Through his gentle humor, he teaches us that laughter and learning often go hand in hand. Suppressed desires are not shameful; they are reminders of what makes us human. And when such desires find expression, they add color and motion to an otherwise disciplined existence.

Conclusion: The Human Spirit in Motion

Gentleman Alhamdulillah stands as a tribute to the resilience of the human spirit. In the guise of a humorous memoir, it unveils the truth that Horse Riding, like life itself, demands courage, rhythm, and balance.

Colonel Ashfaq Hussain’s narrative makes us laugh — but behind that laughter lies a profound understanding: even in the most serious professions, joy, curiosity, and emotional honesty remain essential.

If you’re interested in reading this book, click the link below for a free download.

https://drive.google.com/file/d/1e8aoOcW3WVTFqyyEiFXSKkK_d3U2K4DJ/view?usp=sharing

If you’d like to listen to this book in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.

You can also watch the same video on these social media platforms.

For another humorous take on Horse Riding adventures, explore

Funny Horse Riding Story – From Dream to Disaster

 exclusively on AwazeUrdu.

انسانی لاشعور میں دبی ہوئی خواہشات اکثر کسی موقع یا محرک کے ملنے پر ظاہر ہو جاتی ہیں۔ ان میں بہت سی خواہشات جائز اور فطری نوعیت کی ہوتی ہیں جنہیں انسان وسائل یا حالات کی تنگی کے باعث وقتی طور پر دبا دیتا ہے۔ مگر جب زندگی دوبارہ موقع فراہم کرے تو ان تمناؤں کی تکمیل نہ صرف ممکن بلکہ بعض اوقات روح کی تسکین کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ کرنل (ر) اشفاق حسین کے دل میں بھی ایک ایسی ہی دبی خواہش تھی — گھڑسواری کی — جس کا اظہار انہوں نے اپنی مزاحیہ نثر کے انداز میں اپنی معروف کتاب “جنٹل مین الحمدللہ” کے ایک باب “رنگ رلیاں” میں بڑے دلچسپ اور زندہ دل انداز میں کیا ہے۔

کرنل (ر) اشفاق حسین پاکستان آرمی کے ریٹائرڈ افسر، دفاعی تجزیہ کار، مصنف اور موٹیویشنل اسپیکر ہیں۔ انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں تعلقات عامہ اور میڈیا کے شعبے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ ان کی شہرت کا اصل سبب ان کی نثری سیریز “جنٹل مین” بنی، جس میں انہوں نے فوجی زندگی کے سنجیدہ، دلچسپ اور مزاحیہ پہلوؤں کو ایک منفرد اور خودکلامی انداز میں پیش کیا۔ ان کی تحریروں میں مشاہدے کی گہرائی، زبان کی روانی، اور مزاح کی باریک جھلک قاری کو فوجی دنیا کے قریب لے آتی ہے۔ ان کی بعض تصانیف میں کارگل جنگ اور دیگر عسکری تجربات پر مبنی تاثراتی تحریریں بھی شامل ہیں، جو پاکستان کی عسکری تاریخ کے مطالعے میں اہم اضافہ ہیں۔

“جنٹل مین الحمدللہ” کرنل اشفاق حسین کی اسی سلسلے کی ایک قابلِ ذکر کتاب ہے جس میں انہوں نے فوجی تربیت کے دنوں، ساتھیوں کی شرارتوں، اور اپنے اندر کے عام انسان کی کمزوریوں کو نہایت ہلکے پھلکے مگر معنی خیز انداز میں بیان کیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے قاری نہ صرف فوجی نظم و ضبط اور سختیوں سے واقف ہوتا ہے بلکہ فوجیوں کے درمیان چھپی انسانی نرمی اور لطافت سے بھی آشنا ہوتا ہے۔ اس کتاب میں مزاح محض ہنسانے کے لیے نہیں بلکہ زندگی کے تضادات کو نمایاں کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

آوازِ اردو نے اس کتاب کے ایک نہایت دل چسپ باب “رنگ رلیاں” کو اپنی ویڈیو میں پڑھ کر سنایا ہے۔ اس باب میں مصنف نے شمالی علاقہ جات کی دل فریب فضا میں اپنے گھڑسواری کے پرانے شوق کی تکمیل کا ذکر کیا ہے

یہ پہاڑی علاقوں میں رہنے کا ان کا پہلا تجربہ تھا، اور ان کے ذہن میں مرشدِ اقبالؒ کا یہ شعر گونج رہا تھا

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی

یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی

صحرا تو وہ بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے، سو کہستانی بننے کی ٹھانی۔ پہلا ہی پروگرام یہ بنایا کہ فارغ اوقات میں اردگرد کے علاقے دریافت کیے جائیں۔ خوش قسمتی سے بریگیڈ میجر عبدالعزیز بھی کہستانیوں میں سے تھے۔ بس پھر کیا تھا — دو دیوانے مل بیٹھے، تو گزر اوقات اچھی ہونے سے کون روک سکتا تھا!

آفس سے واپس آتے، کھانا کھاتے، اور نکل کھڑے ہوتے۔ کبھی دریائے استور کی تہہ میں اتر جاتے، جس کے کناروں سے نیچے گہرائی کوئی ایک ہزار فٹ تو ہوگی، اور کبھی بل کھاتے اونچے نیچے راستوں پر بھٹکتے پھرتے۔ میجر عزیز کا روسی نژاد چھوٹا سا کتا ان کےے ساتھ ہوتا — کبھی دور آگے نکل جاتا، کبھی بھاگ کر واپس آتا اور قدموں میں لوٹنے لگتا۔

اداسی کے خلاف جدوجہد میں دو گھوڑوں نے ان کی بہت مدد کی۔ ہوا یوں کہ میجر عزیز کسی کام سے گلگت سدھارے، اور وہ اپنی آوارہ گردیوں میں تنہا رہ گئے۔ ایک دن سیر کے لیے نیچے اتر رہے تھے کہ یوں لگا جیسے کوئی گھوڑا ہنہنایا ہو۔ کان کھڑے ہوگئے۔ تھوڑی جستجو کے بعد پتہ چلا کہ عین بریگیڈ ہیڈکوارٹر کے پہلو میں ایک اصطبل ہے۔ دو صحت مند گھوڑے تھان پر بندھے ہیں اور ایک سائیں ان کی مالش کر رہا ہے۔ تفتیش پر معلوم ہوا کہ گھوڑے ہیڈکوارٹر ہی کے ہیں۔ سائیں پر سخت غصہ آیا کہ اب تک اس نے ہمیں رپورٹ کیوں نہیں دی! ہیڈکوارٹر میں گھوڑے ہوں اور انہیں خبر نہ ہو —

 چراغ تلے اندھیرا ہو گیا۔

گھڑسواری سیکھنے کا پرانا شوق عود کر آیا۔ یہ شوق انہیں پی ایم اے میں بھی چرایا تھا، لیکن وہاں حالات سخت ناسازگار تھے۔ ایک تو وہاں کے گھوڑے بڑے بدتمیز اور بد معاش تھے۔ جانوروں کے ساتھ اگر حد سے زیادہ انسانی سلوک روا رکھا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے۔

پی ایم اے میں جو گھوڑے رکھے جاتے ہیں، بڑے ناز و نعم سے پلے ہوتے ہیں۔ انھیں باقاعدہ سالانہ چھٹیاں ملتی ہیں، اور سال کے چالیس دن یہ نواب زادے یوں گزارتے ہیں کہ ان پر زین ڈالنا سرے سے موقوف ہوتا ہے۔ تھان پر کھڑے کھڑے راتب کھاتے ہیں، صاف ستھرے حوضوں سے شفاف پانی نوش فرماتے ہیں، صبح و شام انھیں ٹہلانے کے لیے لے جایا جاتا ہے۔ اس شان سے کہ ہر گھوڑے کا سائیں اس کی لگام کپڑے میں لپیٹے، اس کے ساتھ ساتھ پاپیادہ چلتا ہے۔ فضا میں خنکی ہو تو ان پر کمبل ڈالے جاتے ہیں۔

ان ناز نخروں سے پلنے والے گھوڑے کیڈٹوں کو کیا گھاس ڈالیں! ہٹے کٹے گھوڑے کے سامنے دبلا پتلا کیڈٹ ویسے ہی بھیگا بھیگا سا لگتا ہے۔ اگر وہ قصدِ رکوب کر بیٹھے تو گھوڑے کی وحشت دیدنی ہوتی ہے — ہنہناتے الگ، آنکھیں الگ نکالتے!

انہوں نے کتنی بار گھوڑوں سے دوستی استوار کرنے کی کوشش کی — گُڑ خرید کر ساتھ لے جاتے، سوار ہونے سے پہلے بڑی نیازمندی سے پیش کرتے، سواری کے دوران مستقل انھیں پچکارتے — لیکن انھیں رام ہونا تھا نہ ہوئے۔ کبھی بلاوجہ اچھل کود شروع کر دیتے، کبھی گردن اونچی نیچی کر کے راہیں ان سے چھین لیتے۔

ایک بار ایک گھوڑا رائیڈنگ اسکول کا چھوٹا سا گیٹ پھلانگ کر انہیں باہر کھلے میدان میں لے بھاگا۔ وہ بس اس کی پشت سے چپک کر رہ گئے۔ وہ میدان کے چاروں طرف زقندیں بھرتا دوڑتا رہا۔ میدان میں موجود ماہر گھڑسواروں نے ایک کیڈٹ کو یوں سہما سہما گھوڑے سے چمٹا دیکھا، تو سب اپنے گھوڑے روک کر ایک جگہ اکٹھے ہوگئے۔ کیونکہ تربیت کے مطابق، بھاگتے گھوڑے کو روکنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اسے اپنے ہم نفس گھوڑوں کی شرافت سے متاثر ہونے دیا جائے۔

گھوڑا بنیادی طور پر شریف جانور ہے — شرافت سے متاثر ہو جاتا ہے۔ چنانچہ وہ بھی بالآخر سر جھکائے دوسرے گھوڑوں کے ساتھ آ کر کھڑا ہوگیا۔ کیڈٹ نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں تو خود کو اس کی پشت پر اوندھا پایا۔ دیکھا کہ گھوڑا شرم سے پسینے پسینے ہو چکا ہے، اور عرقِ انفعال کے قطرے اس کے نتھنوں سے بہہ رہے ہیں۔

وہ سیدھے ہوئے تو اسٹاف کا افسر مخاطب ہوا:

“صاحب! یہ کس کی اجازت سے آپ گھوڑا باہر لے گئے ہیں؟”

حالانکہ سوال گھوڑے سے کیا جانا چاہیے تھا کہ وہ کس کی اجازت سے نوآموزکیڈٹ لے گیا! ان کا تو ایک ہاتھ باگ پر تھا، نہ پاؤں رکاب میں۔

حکم ملا کہ واپس رائیڈنگ اسکول جائیں۔ انہیں خطرہ تھا کہ اگر دوسرے گھوڑوں سے الگ ہوئے تو یہ پھر وہی حشر کرے گا۔ تاہم انہوں نے چھلانگ لگائی، نیچے اتر آئے اور اس کی باگ تھام لی۔ پہلے اسکول کی طرف چلے۔

“صاحب! ماؤنٹ کریں، اوپر ماؤنٹ!”

کیڈٹ نے بے بسی سے اس سرکش گھوڑے کی طرف دیکھا، وہ باگیں چھڑا کر بھاگ نکلا۔ انہوں نے سوالیہ نظروں سے سٹاف کی طرف دیکھا۔

“اب کیا کریں؟”

“صاحب! کیا دیکھ رہے ہیں، جائیں گھوڑا پکڑیں!”

یعنی کیڈٹ جائےاور گھوڑا پکڑے جو دور اصطبل کے دروازے کی طرف جا رہا تھا! لیکن سٹاف سے جان چھڑانے کے لیے یہ بھی سرپٹ بھاگے اور رائیڈنگ اسکول پہنچ کر دم لیا۔ گھوڑا اصطبل میں جا چکا تھا، مگر اسکول کا اسٹاف سوالیہ نشان بنے بیٹھا تھا۔

“صاحب! گھوڑا کہاں چھوڑ آئے آپ؟”

انہوں نےجواب دیا: “ہم نے کہاں چھوڑا تھا گھوڑے کو! وہ ہمیں چھوڑ کر آیا تھا!” بڑی مشکلوں سے جان خلاصی ہوئی۔

ایک بار وہ غلطی سے ایک انتہائی صحت مند گھوڑے پر سوار ہوگئے۔ بلکہ سوار کہاں ہوئے — ابھی آدھے رکاب میں تھے کہ وہ الف ہوگیا۔ وہ اس کی راسوں سے لٹک گئے۔ گھوڑا اپنا توازن کھو بیٹھا اور پیٹھ کے بل پیچھے کو گرا۔ کیڈٹ نیچے، گھوڑا اوپر — جانے صحیح سلامت کیسے بچ گئے! اس کے بعد سے پی ایم اے کے گھوڑوں سے مستقل کنارہ کشی رہی۔

اب جو اتنے دنوں بعد پھر سے گھوڑے نظر آئے تو ان کی نسل سے انتقام لینے کا جذبہ جاگ اٹھا۔ تب مصنف حکم دیا کہ آئندہ روز سے روزانہ شام کو گھوڑے ہمارے حضور پیش کیے جایا کریں۔ اب کے ان کا رویہ نیازمندانہ نہیں، جارحانہ تھا۔ دو تین دنوں ہی میں سواری کا ڈھب آگیا، گھوڑوں نے بھی آفیسر سے صلح کر لی۔ ثابت ہوا کہ پائیدار صلح کے لیے محض التجائیں کافی نہیں ہوتیں — کچھ قوت بھی درکار ہوتی ہے، جسے بوقتِ ضرورت استعمال کرنا چاہیے۔

ہیڈکوارٹر سے ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر ایک پولو گراؤنڈ تھا۔ گھوڑے اسے خوب پہچانتے تھے۔ یہاں آتے ہی ان کی حالت مضطرب ہو جاتی — لاکھ روکیں، لاکھ ٹوکیں، وہ بجلی بن کر ہوا ہو جاتے اور سرپٹ دوڑنے لگتے۔ جب شدتِ تنفس سے ہانپنے لگتے تو گھڑسوار لوٹ آتے۔

لیکن ان کی آوارہ گردی صرف پولو گراؤنڈ تک محدود نہ رہی۔ اللہ تعالیٰ شکر خورے کو شکر دیتا ہےاور وہ حسن کی تلاش میں نکلے تھے:

حسن جس رنگ میں ہوتا ہے، جہاں ہوتا ہے

اہلِ دل کے لیے سرمایۂ جاں ہوتا ہے

اور اتفاق انہیں ایسی جگہ لے گیا جہاں حسن اپنے تمام تر جمال و جلال کے ساتھ جلوہ نما تھا۔ استور سے تقریباً اٹھائیس میل کے فاصلے پر ایک گاؤں ہے — رٹو۔ مصنف نے منصوبے کےمطابق ایجوکیشن کی کلاسیں چلانے کے لیے اسی جگہ کا انتخاب کیا تھا، لیکن اس سے پہلے کہ جوان دوسرے کاموں سے نمٹ کر بلندیوں سے اترتے، انہوں نے مناسب جانا کہ رٹو کو ایک نظر دیکھ لیا جائے، رہائشی سہولتوں کا جائزہ لے لیا جائے، اور ضرورت کی چیزیں پہلے سے مہیا کر لی جائیں۔

کمانڈر سے ذکر کیا تو انھوں نے بخوشی جانے کی اجازت دے دی۔ اگلے دن وہ ایک جیپ میں رٹو روانہ ہوگئے۔ ابھی آدھا فاصلہ بھی طے نہ کر پائے تھے کہ ایک اور جیپ سامنے سے آتی دکھائی دی۔ قریب آنے پر معلوم ہوا کہ میجر ریاض بنگش ہیں۔ رٹو میں ان دنوں وہ واحد افسر تھے۔ پتہ چلا کہ وہ راول پنڈی جا رہے ہیں۔ گویا مصنف کی میزبانی کے شرف سے محروم ہونے جا رہے تھے۔ بنگش صاحب نے بہت سمجھایا کہ اتنی بڑی چھاؤنی میں اکیلے جا کر کیا کرو گے، لوٹ چلو، پھر آنا۔ لیکن یہ نگاہِ شوق کی تقصیر تھی جسے روکا نہ جا سکا۔ قدم اُٹھے تو رکے نہیں۔ ہم نے میجر بنگش کو خدا حافظ کہا اور سفر جاری رکھا۔

اس باب میں ان کے مشاہدے کی وسعت اور زبان کی برجستگی قاری کو ایسا محسوس کراتی ہے جیسے وہ خود بھی ان مناظر میں شامل ہو۔ مصنف جب گھوڑے کی ضد، اپنی بےبسی، اور بالآخر اپنی کامیاب سواری کا احوال بیان کرتے ہیں تو منظر گویا زندہ ہو اٹھتا ہے۔ ان کا طنزیہ جملہ — “ہم نے کہاں چھوڑا تھا گھوڑے کو، وہ ہمیں چھوڑ کر آیا تھا!” — اردو مزاح کے بہترین نمونوں میں سے ہے۔

کرنل اشفاق حسین کی تحریریں اس بات کی گواہ ہیں کہ سنجیدہ زندگی کے اندر بھی خوش مزاجی اور خود تنقیدی کا حسن موجود رہتا ہے۔ ان کا نثر پارہ “رنگ رلیاں” صرف ایک فوجی کے شوقِ گھڑسواری کی کہانی نہیں بلکہ انسانی خواہشات کی بازیافت کا استعارہ بھی ہے — وہ خواہشات جو وقتی طور پر دب جاتی ہیں مگر موقع ملنے پر زندگی کو پھر سے رنگین کر دیتی ہیں۔

کرنل اشفاق حسین کی یہی خوبی ہے کہ وہ قاری کو ہنساتے ہوئے زندگی، مشاہدے اور تجربے کی ایک گہری سچائی سے روشناس کراتے ہیں۔ ان کا اسلوب اردو نثر میں فوجی مزاح اور خود آگاہی کے امتزاج کی ایک انوکھی مثال ہے، اور ان کی کتابیں اردو ادب میں طویل عرصے تک پڑھی اور یاد کی جاتی رہیں گی

Leave a Comment