A Divine Fragrance and a Tragic Memory

Imam Hussain (RA) is the living fragrance of Ahl al-Bayt, whose name evokes purity, sacrifice, and unshakable devotion to the truth. As the sacred month of Muharram nears, his martyrdom rekindles a powerful spiritual connection with the Prophet Muhammad ﷺ and his blessed family, reminding the Ummah of the timeless values he stood for
The legacy of Imam Hussain (RA) is inseparable from the fragrance of Ahl al-Bayt—a symbol of purity, sacrifice, and unwavering devotion to truth. His stand in Karbala was not only a historical event but a defining moment for Islamic values and resistance to tyranny.
The Blessed Lineage of Ahl al-Bayt
The fragrance of Ahl al-Bayt—this phrase evokes images of purity, sacrifice, and unbreakable ties to the Prophet’s ﷺ heart. His daughter Fatimah (RA), the youngest of his children born to Hazrat Khadijah (RA), was the only one to survive the Prophet ﷺ after his passing. From her union with Ali ibn Abi Talib (RA), two sons were born: Hasan (RA) and Hussain (RA), the cherished grandsons of the Prophet ﷺ.
The Prophet’s ﷺ Flowers
These two were not just family—they were, as the Prophet ﷺ called them, “my two flowers in this world” (Bukhari). Among them, Imam Hussain (RA) holds a unique place in Islamic history and spirituality, for it was he who stood against tyranny and gave his life to uphold the values of truth, justice, and prophetic legacy. The fragrance of Ahl al-Bayt became crimson on the soil of Karbala.
Ameer Hamza’s Tribute to Imam Hussain (RA)
Ameer Hamza, a renowned Pakistani columnist and author, captured this profound legacy in his column “عترتِ حسین رضی اللہ عنہ کی خوشبو” published in Roznama Dunya on July 12, 2024. Known for his religious and social writings, Hamza presents authentic hadiths and historical narrations that reflect the sanctity of Imam Hussain’s (RA) sacrifice.
The Dream of Umm al-Fadl (RA)
One such narration relates to a dream seen by Umm al-Fadl, the wife of Abbas (RA). She dreamt a piece of the Prophet’s ﷺ body was placed in her lap. Upon interpreting it, the Prophet ﷺ explained that his daughter Fatimah (RA) would bear a son who would one day be in her care. That child was Hussain (RA). On another occasion, she witnessed the Prophet ﷺ weeping while holding young Hussain (RA) and explained that the angel Jibreel had foretold Hussain’s (RA) martyrdom.
The Soil of Karbala and the Prophetic Sorrow
This prophetic sorrow is unparalleled. When Jibreel brought the red soil of Karbala to the Prophet ﷺ, it was a sign of the deep grief that would befall the family. The fragrance of Ahl al-Bayt—especially the spiritual scent of Hussain (RA)—was already destined to rise from the bloodied land of Karbala.
“Hussain is from Me and I Am from Hussain”
The Prophet ﷺ said, “Hussain is from me, and I am from Hussain” (Sunan Tirmidhi), an expression of spiritual intimacy that shows how deeply the soul of the Prophet ﷺ is interwoven with that of his grandson. Those who raised swords against Imam Hussain (RA) raised swords, in essence, against a part of the Messenger’s ﷺ own being.
The Heavenly Angel and the Soil
Another narration recounts how a heavenly angel, never before seen by the Prophet ﷺ, came to deliver the solemn news of Hussain’s martyrdom. This angel not only announced the tragedy but brought the very soil upon which the Imam’s blood would fall. This was not merely a forewarning; it was divine recognition of the sacred nature of his sacrifice.
The Two Weighty Trusts
The fragrance of Ahl al-Bayt is not merely emotional. It is spiritual guidance. The Prophet ﷺ said, “I leave behind two weighty things: the Book of Allah and my Ahl al-Bayt. If you hold fast to them, you will never go astray” (Sahih Muslim). This command encompasses not just love, but allegiance and emulation.
Karbala: A Stand for Truth
Imam Hussain’s (RA) stand at Karbala was not about power—it was about restoring the political and moral order laid by the Prophet ﷺ, where leadership is based on consultation, not heredity or autocracy. The true Islamic system—free from nepotism—was violated when the rightful succession was hijacked. In response, Imam Hussain (RA) chose sacrifice over silence.
The Courage of Hazrat Zaynab (RA)
When the tyrant Ibn Ziyad sought to execute Imam Zain al-Abidin (RA), the lone surviving son of Hussain (RA), it was the fearless stand of Zaynab bint Ali (RA) that saved the legacy of the Ahl al-Bayt. Today, descendants of Hussain (RA) exist around the world, while the legacy of Yazid has vanished.
A Fragrance That Still Lives
The fragrance of Ahl al-Bayt lives on not just in memory but in practice. It urges believers to return to the core values of the Prophet’s ﷺ teachings: justice, truth, compassion, and resistance to oppression. To love the Ahl al-Bayt is not merely to mourn their suffering—it is to live by the principles they died for.
A Shared Scent of Islam and Humanity
Let our hearts and minds be perfumed with the fragrance of Ahl al-Bayt. This is a shared fragrance—of Islam, of humanity, of the timeless struggle between truth and falsehood.
If you’d like to listen to any book in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.
You can also watch the same video on these social media platforms.
جناب امیرحمزہ پاکستان کے معروف اردو کالم نگار اور مصنف ہیں جو مذہبی اور سماجی موضوعات پر اپنی تحریروں کے لیے مشہور ہیں۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر متعدد کتب تصنیف کی ہیں، جن میں “تصوف کی تباہ کاریاں” شامل ہے، جس میں انہوں نے صوفیانہ عقائد اور وحدت الوجود پر تنقید کی ہے۔
اُن کے کالمز روزنامہ دنیامیں شائع ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں مختلف اردو ویب سائٹس پر ان کےمضامین دستیاب ہیں، جہاں وہ سیاسی اور سماجی مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
ان کی تصانیف اور تحریریں علمی و ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں، اور وہ پاکستان میں مذہبی اور سماجی مسائل پر اپنی مدلل تحریروں کے لیے جانے جاتے ہیں۔
محرم الحرام کی مناسبت سے جناب امیرحمزہ کادرج ذیل کالم”عترتِ حسین رضی اللہ عنہ کی خوشبو” 12جولائی 2024ءکوروزنامہ دنیامیں شائع ہوا۔
اللہ کے آخری رسولﷺ کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہؓ ہیں۔ ایک بیٹے ابراہیمؓ کے علاوہ حضور نبی کریمﷺ کی ساری اولاد حضرت خدیجہؓ سے ہے۔ حضورﷺ کی چار بیٹیوں میں سب سے چھوٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ حضورﷺ کے سارے بیٹے اور بیٹیاں آپ کی حیات ہی میں وصال کر گئے‘ صرف حضرت فاطمہؓ ہی تھیں جن کا وصال آپﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد ہوا۔ اُس وقت حضرت فاطمہؓ کے دو بیٹے تھے۔ بڑے حضرت حسنؓ ،جو سات سال کے تھے اور چھوٹے حضرت حسینؓ، جو لگ بھگ چھ سال کے تھے۔ حضرت علی المرتضیٰؓ اور حضرت فاطمہؓ کے یہ دونوں فرزندان حضورﷺ کے دل کی ٹھنڈک اور آنگن کے خوشبودار پھول تھے۔
دس محرم کا دن جوں جوں قریب آتا ہے‘ شہادتِ امام حسینؓ کی مظلومانہ داستان دل کے چاروں خانوں کو غم اور کرب سے لبالب کرنا شروع کر دیتی ہے۔ حضرت حسینؓ ابھی اس دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے کہ حضورﷺ کی چچی نے ایک خواب دیکھا۔ یہ چچی حضرت عباسؓ کی اہلیہ تھیں‘ جو اُمِ فضل کے نام سے مشہور ہیں۔ کہتی ہیں کہ میں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بتایا کہ رات میں نے ایک ناپسندیدہ خواب دیکھا۔ حضورﷺ نے پوچھا: کیا دیکھا ہے؟ عرض کیا: انتہائی کربناک خواب ہے۔ فرمایا: بتلایئے تو سہی کیا دیکھا؟ کہا: میں نے ایسے دیکھا کہ جیسے آپﷺ کے جسم کے ایک حصے کو کاٹ دیا گیا ہو اور اس حصے کو میری گود میں رکھ دیا گیا۔ یہ سن کر حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا ”آپ نے اچھا خواب دیکھا ہے‘‘۔ پھر خواب کی تعبیر کرتے ہوئے کہا ”ان شاء اللہ فاطمہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوگا اور وہ بچہ آپ کی گود میں ہو گا‘‘ (سلسلہ صحیحہ)۔ قارئین کرام! یہ خوبصورت ترین بچہ دنیا میں آ گیا اور حضورﷺ نے اس کا نام حسینؓ رکھا۔ حضرت اُمِ فضلؓ کہتی ہیں کہ تعبیر اس طرح پوری ہوئی کہ ایک دن یہ بچہ میری گود میں تھا۔ اس کے بعد ایک دن ایسا ہوا کہ میں نے ننھے حسینؓ کو حضور نبی کریمﷺ کی گود مبارک میں رکھ دیا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ حضورﷺ کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ پوچھا: کیا ہوا؟ فرمایا: میرے پاس جبرائیل آئے‘ انہوں نے بتایا کہ عنقریب میری امت میرے اس بیٹے کو شہید کر دے گی۔ میں نے تعجب سے پوچھا: اِس کو؟ فرمایا: ہاں۔ جبرائیل تو اس کی قبر کی سرخ مٹی بھی لے کر آئے‘‘ (سلسلہ صحیحہ)۔
اللہ نے اپنے رسولﷺ پر خواب کے ذریعے واضح کر دیا کہ حضرت حسینؓ اپنے نانا کے مبارک جسم کا ایک مبارک ٹکڑا ہیں۔ اب جن لوگوں نے کربلا میں حضرت امام حسینؓ کے جسم پر تلواروں اور نیزوں سے حملے کیے‘ انہوں نے آخری رسولﷺ کے مبارک جسم پر حملے کیے۔ دوسری بات یہ کہ حضرت حسینؓ کا مقام اس قدر بلند ہے کہ ان کی قبر مبارک جس مٹی سے بنی‘ وہ مٹی حضرت جبرائیل نے اٹھائی اور حضورﷺ کے سامنے پیش کی۔ فضیلتِ شہادت حسینؓ کی یہ وہ رفعت ہے جس میں صحابیت اور اہلِ بیت کے جہان کو دیکھوں تو انفرادیت اور خصوصیت صرف اور صرف سیدنا حسینؓ کی قسمت میں ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے اُم المومنین حضرت اُمِ سلمہؓ کو بتایا ” میرے پاس ایک فرشتہ آیا جو آج سے قبل کبھی میرے پاس نہیں آیا۔ اس نے کہا: آپ کا یہ بیٹا‘ حسین شہید ہے۔ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اُس زمین کی مٹی بھی دکھلا دیتا ہوں جس میں انہیں شہید کیا جائے گا۔ آپﷺ نے بتایا کہ پھر وہ فرشتہ سرخ رنگ کی مٹی لے کر آیا‘‘(سلسلہ صحیحہ)۔ اللہ اللہ! یہ حقیقت ملحوظ رہنی چاہیے کہ خواب سے آگے بڑھ کر دو حقائق ایسے ہیں کہ جن سے اللہ کے ہاں شہادتِ حسینؓ کی خبر کی عظمت کا پتا چلتا ہے۔ پہلی یہ کہ فرشتوں کے سردار حضرت جبرائیل علیہ السلام اس خبر کو لے کر خود حضور نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر سرخ مٹی حضورﷺ کی خدمت میں پیش کی۔ پھر ایک ایسا فرشتہ آتا ہے جو زمین پر پہلی بار آیا۔ اور محسوس ہوتا ہے کہ آخری بار‘ آخری رسول کے پاس آیا اور صرف اور صرف شہادتِ حسینؓ کی خبر دینے آیا۔ تربت کی سرخ مٹی بھی حضورﷺ کی خدمت میں لے کر آیا۔ میری جان قربان شانِ حسینؓ پر کہ جس کا اعلان رب رحمن نے کئی سال قبل ہی اپنے حبیب ذی شانﷺ کے سامنے کر دیا۔ سیدنا حسینؓ کی عظمت کو بے شمار سلام۔
اللہ تعالیٰ نے اپنا خصوصی فرشتہ بھیج کر شہادت کے ساتھ جو اہم ترین خبر دی وہ ”اِبنک ھذا حسین‘‘ آپ کا یہ بیٹا کہ جس کا نام حسینؓ ہے‘ یہ آپ کے جسم کا حصہ اور آپ کا بیٹا ہے۔ مندرجہ بالا احادیث کو امام حاکم اور امام حنبل لائے ہیں۔ علامہ ناصر الدین البانیؒ نے ان کو صحیح قرار دیا۔ حضرت اُمِ فضلؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار کسی بات پر میں نے حضرت حسینؓ کے کندھے پر ہلکی سی چپت لگائی تو حضورﷺ نے کہا ”آپ نے میرے بیٹے کو درد دیا‘‘ (ابن ماجہ)۔ حافظ زبیر علی زئیؒ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔ اللہ کے رسولﷺ نے اپنی زبان مبارک سے واضح کیا کہ میری اولاد قیامت تک حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے چلے گی۔ فرمایا ”دنیا میں یہ میرے دو پھول ہیں‘‘ (بخاری)۔ امت کیلئے کس قدر خسارہ ہے کہ بڑے پھول کو زہر دے کر مسل دیا گیا تو چھوٹے پھول کر کربلا کی سرخ مٹی میں لہولہان کر دیا گیا۔ یہ اتنا بڑا المیہ ہے کہ اس سے بڑھ کر امت کیلئے کوئی کرب‘ کوئی مصیبت اور کوئی تکلیف نہیں۔
حضورﷺ نے فرمایا: لوگو! میں تم میں دو ایسی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم لوگ انہیں پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے۔ ایک اللہ کی کتاب ہے اور دوسری میری عترت (اہلِ بیت) ہے (ترمذی‘ صحیح)۔ امام جمال الدین انصاری”لسان العرب‘‘ میں لکھتے ہیں ” عترہ‘‘ واحد ہے اس کی جمع ”العتر‘‘ ہے۔ یہ ایک پودا اور بوٹی ہے‘ جو تہامہ اور یمن وغیرہ کے علاقے میں پیدا ہوتی ہے۔ چشمے کا شفاف پانی اس پر بہتا ہے تو افادیت بڑھ جاتی ہے۔ پودے کی صورت میں اس کا بیر جتنا سرخ پھل رسیلا اور مزے دار ہوتا ہے۔ اسی نام سے سبزی بھی ہے۔ ان کی جڑوں کو کاٹا جائے تو دودھ جیسا سفید پانی بہہ نکلتا ہے۔ اس کا پھل سینے کی بیماریوں میں مفید ہوتا ہے۔ امام جمال الدین مزید لکھتے ہیں کہ اس پودے کے تنے اور شاخوں کو شجرۂ نسب کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ قارئین! مطلب یہ ہوا کہ حضورﷺ نے عترت کا جو لفظ استعمال فرمایا تو اہلِ بیت کے وسیع دائرے میں۔ حسن و حسین رضی اللہ عنہما حضورﷺ کی عترت ہیں۔ امام جمال الدین یہی مراد لیتے ہیں کہ ”عتر‘‘ کو ”اصل‘‘ بھی کہا جاتا ہے‘ یعنی احداث و حوادث اور مشکلات کے بعد پھر اپنی اصل پر آ جاتے ہیں۔ کوفہ کے یزیدی گورنر عبیداللہ بن زیاد نے حضرت حسینؓ کے بچ جانے والے واحد بیٹے حضرت علی بن حسین المعروف زین العابدینؓ کو شہید کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت زینب بنت علیؓ کے دلیرانہ کردار سے اللہ نے انہیں بچا لیا اور آج دنیا بھر میں حسینی اولاد بے شمار ہے مگر یزیدی کوئی نہیں ملتا۔
صحیح مسلم میں وارد حدیث کے مطابق حضورﷺ نے امت کو قرآن کو مضبوطی سے تھامنے کی وصیت فرمائی۔ (قرآن کی بات ہو تو حدیث اور سنت اس میں شامل ہوتی ہے) آپﷺ نے اسے بھاری قرار دیا۔ دوسری بھاری چیز اہلِ بیت کو قرار دیا (سلسلہ صحیحہ)۔ ایک حدیث میں حضورﷺ نے اپنے بعد اختلاف کی صورت میں خلفائے راشدین کی سنت کو تھامنے کی وصیت فرمائی۔ میری تحقیق یہ ہے کہ یہاں دونوں جگہ سیاسی سنت مراد ہے۔ حضورﷺ کا دیا ہوا وہ سیاسی نظام جس میں موروثیت نہیں‘ اقربا پروری نہیں‘ وصیت نہیں‘ بلکہ امت کا یہ حق ہے کہ باہم مشورے سے اپنا حاکم بنائے۔ جب یہ حق چھینا گیا تو حضرت حسینؓ نے اپنی اور اپنے خاندان کی قربانی سے دریغ نہ کیا۔ یہ ہے عترتِ حسینؓ کی خوشبو۔ یہ اہلِ اسلام کی مشترکہ خوشبو ہے۔ یہ انسانیت کی خوشبو ہے۔ آئیے! سب مل کر اس خوشبو سے دل و دماغ کو معطر کریں۔