Organized Begging Mafia: A Dark History of Decline and Deceit

Introduction: The Rise of the Organized Begging Mafia

The organized begging mafia is not merely a modern urban challenge—it is the latest face of a long and complex history of spiritual alms and poverty. From ancient ascetics seeking spiritual purity through “bhiksha” to today’s syndicates controlling street beggars, the journey of begging in South Asia is layered with culture, faith, economics, and exploitation.

This blog explores the history behind the rise of the organized begging mafia, tracing its roots in ancient India and examining how spiritual traditions eventually gave way to commercialized and often criminal begging networks.

Spiritual Begging in Ancient India

Long before the organized begging mafia existed, begging held a sacred place in Indian religious traditions. Jainism, Buddhism, and Hinduism introduced the practice of “bhiksha”—alms taken not out of need, but as a means of spiritual purification. Renunciates abandoned material life and relied on minimal offerings for survival, a practice seen as a noble detachment from worldly attachments.

The story of a young Punjabi king who renounced his throne at his mother’s wish illustrates this ethos. In another tale, Bharthari Hari, the brother of King Vikramaditya, left his kingdom in sorrow and became a mendicant. These historical references show that begging was once associated with renunciation and discipline, not desperation or fraud.

Cultural Legacy and Literary Echoes

The tradition continued with poets like Nazir Akbarabadi, himself known for writing about beggars and street life. His works, later archived by researchers, were collected from oral recitations of street mendicants. These figures, often clothed in nothing more than a scrap of cloth, recited devotional poetry and accepted whatever little was offered.

Before colonial times, most beggars—both Muslim and non-Muslim—were spiritual seekers. Dargahs relied on “nazr” and donations from devotees to survive, blending religious devotion with voluntary charity. Though the organized begging mafia was still centuries away, seeds of structural dependence on alms were already planted.

Colonial Disruption and Social Shifts

British colonial policies introduced capitalist structures that disrupted local economies. Wealth was concentrated among landlords and political elites, while many others fell into poverty. It was during this transition that the act of begging slowly began to shift from spiritual tradition to economic necessity.

People who could not find footing in the new economy turned to begging. Over time, an underclass emerged, creating a divide between “haves” and “have-nots.” The organized begging mafia would later exploit this vulnerability.

Ashraf Sharif‘s Perspective on the Transformation

Journalist Ashraf Sharif offers a piercing look into this evolution in his column “بھیک رہ گئی۔۔فقیر اٹھ گئے”, published on May 14, 2024, in Daily 92 News. In this column, he traces the philosophical and historical lineage of beggars—from ancient Punjab’s spiritual jogis to modern urban beggars. He notes how fakirs of the past lived with dignity, humility, and spiritual intent, while today’s beggars have become aggressive, organised, and often exploitative.

He shares how modern beggars use sound systems to broadcast emotional poetry or religious verses, and some even resort to threats or curses when denied money. Sharif also exposes the link between organized begging mafia networks and criminal activities like child trafficking and forced disability, enabled by political and police protection.

The Modern Exploitation: A Business of Begging

The spiritual essence of begging is now replaced by commercial incentives. Handlers control children, women, transgender individuals, and even physically disabled persons. Many wear vests with multiple pockets stuffed with cash, which contradicts the image of poverty they often display.

This transition shows that today, begging is often not about survival but profit. In many urban areas, begging has become a full-fledged industry run by what can only be described as an organized begging mafia.

Conclusion: From Sacred to Syndicated

The journey from “bhiksha” to organized begging mafia reflects more than just a social change—it reveals a moral transformation. Where once poverty and spirituality coexisted with dignity, now desperation and crime have taken over in many spaces.

If you’d like to listen to any Urdu Column in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.

You can also watch the same video on these social media platforms.

Let’s rethink how we address street begging. Not every beggar is part of a mafia, but the system enabling exploitation must be dismantled. Awareness is the first step—share this post to highlight the reality behind the streets.

اشرف شریف ایک معروف اور بااثر صحافی و کالم نگار ہیں جنہوں نے اپنی تحریروں اور تبصروں کے ذریعے معاشرتی و سیاسی موضوعات کو بے باکانہ اور واضح انداز میں اجاگر کیا ہے۔ اُن کی قلمکاری میں نہ صرف تجزیاتی گہرائی اور توازن نظر آتا ہے بلکہ عوامی مفادات کی پاسداری اور حقائق کی نشاندہی کا جذبہ بھی صاف جھلکتا ہے۔ اُن کا کام معیارِ صحافت کو بلند کرتا ہے اور قارئین میں معلومات کے شعور و بیداری کو فروغ دیتا ہے، جس کی بدولت وہ ایک معتبر اور مستند شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

بھیک رہ گئی ۔۔فقیر اٹھ گئے

اس عنوان سے ان کادرج ذیل  کالم روزنامہ ۹۲ نیوزمیں منگل 14 مئی 2024ءکوشائع ہوا، جو آوازِاردونے زمرہءکالم کی ایک ویڈیومیں پڑھ کرسنایاہے۔

“قدیم ہندوستان خوشحال تھا۔حالات جتنے بھی پریشان کن رہے، یہاں کے باشندے، خاص طور پر پنجاب کے زراعت پیشہ لوگ اپنا رزق زمین سے اگا ہی لیتے۔ ہزاروں برس قبل بھیک کا تصور اس وقت سامنے آیا جب جین، ہندومت اور بدھ مت میں انسان کو داخلی پاکیزگی کی تعلیم کا ایک ذریعہ بھکشا رکھا گیا۔ میں جب پنجاب کے غیر مسلم فقیروں پر کچھ تفصیلات جمع کر رہا تھا تو معلوم ہوا کہ بھیک کی پہلی وجہ ناداری نہیں تھی بلکہ یہ روحانی مقصد سے رواج پائی۔ ایک قدیم پنجابی راجہ کی کہانی ہے، کوئی دو ہزار سال سے زیادہ پرانی، نوجوان راجہ نہارہا ہوتا ہے کہ اس پر پانی کے چند قطرے آسمان سے گرتے ہیں۔ آسمان صاف تھا، اسے کوئی بادل نظر نہ آیا۔ قطرے دوبارہ گرے، راجہ نے غور سے دیکھا تو اسے محل کی کھڑکی میں اپنی ماں کھڑی نظر آئی۔ یہ قطرے اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو تھے۔ راجہ ماں کے پاس گیا۔ پوچھا: کسی نے تکلیف پہنچائی، برا بولا ہے تو بتائو، ابھی مار ڈالوں۔ ماں نے نفی میں سر ہلایا اور بولی! تمہارا بدن کتنا سندر ہے، موت اسے ایک دن فنا کر دے گی۔ بس یہ سوچ کر رونا آ گیا۔ راجہ بولا:ماں، موت تو ہر انسان کا مقدر ہے۔ اس انجام سے ہر جسم کو دوچار ہونا ہے، حسین اور بدصورت سب کا بدن مٹی میں گھل جاتا ہے، راکھ ہو جاتا ہے۔ ماں نے کہا: لیکن میں چاہتی ہوں میرے بیٹے کا انجام یہ نہ ہو اس لیے تم جوگی بن جائو۔ راجہ بولا: تم کیسی ماں ہو، بیٹے کو سکھ، عیش اور آسودگی کی زندگی ترک کر کے بھیک پر گزارہ کرنے، جنگلوں میں پھرنے، زمین پر سونے اور سختیاں جھیلنے کو کہہ رہی ہو۔ کیا کسی ماں نے اپنے بیٹے کے لیے ایسا کبھی سوچا۔ماں اور بیٹے میں کچھ دیر اس معاملے پر بات ہوتی ہے اور آخر راجہ قریبی جنگل میں ڈیرہ ڈالے جوگیوں کے پاس جا پہنچتا ہے۔ بڑا جوگی اس کا امتحان لیتا ہے، جوگیوں کی سخت زندگی کے متعلق آگاہ کرتا ہے۔ راجہ اپنے ارادے پر ڈٹا رہتا ہے۔ جوگی اسے چیلا بنا لیتا ہے۔ کہانی آگے بھی چلتی ہے لیکن ہمیں صرف بھیک مانگنے کی روایت کا روحانیت کے ساتھ تعلق دکھانا تھا۔نامور حکمران بکرماجیت کے بڑے بھائی بھرتری ہری کا قصہ تو سن ہی رکھا ہو گا۔اس نے اپنی وفا شعار بیوی کے دکھ میں سلطنت تیاگ دی،سب کچھ چھوٹے بھائی بکرما جیت کے حوالے کر کے سنیاس لے لیا۔ہمارے پسندیدہ شاعر نظیر اکبر آبادی بھی ایک فقیر تھے۔انہوں نے جو نظمیں اور گیت لکھے ان کا ریکارڈ محققین نے بھیک کے لئے صدا دینے والوں سے لے کر جمع کیا۔ انگریز کے آنے سے پہلے ہندوستان میں بھکشا لینے والے وہی لوگ تھے جو تارک الدنیا ہو چکے تھے اور صرف زندہ رہنے کے لیے کھانا مانگا کرتے۔ لباس سے بہت سے فقیر بے نیاز تھے۔ بہت ہوا تو لنگوٹی پہن لی۔ مسلمان صوفیا نے روحانیت کے ان تصورات کو تبدیل ضرور کیا لیکن بھیک یا چندہ اس سے الگ نہ کئے جا سکے۔ عقیدت کے لفظوں میں اسے نذرانہ، نذر یا ہدیہ بھی کہا جانے لگا۔درگاہوں کے انتطامات کے لئے مستقل آمدن نہیں تھی، نذر اور عطیہ کو اس کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ پھر درگاہوں کے نذرانے اور محتاجوں کی گداگری میں فرق آنے لگا۔ انگریز کی پالیسیوں نے سماج میں سرمایہ داری کا نظام رائج کیا۔ لوگ زیادہ دولت جمع کرنے اور پھر اس سے اور دولت کے لیے سرمایہ کاری کرنے لگے۔ سماج میں سیاسی طاقت رکھنے والے ہی دولت مند بننے لگے۔ جو اس کوچہ سے باہر رہے ان کی ضروریات نے انہیں بھکاری بنا دیا۔امیر اور غریب کا تصور Have اوHave not کی صورت میں ابھرا۔ہیو ناٹس نے سسک کر زندگی گزاری،ڈاکے ڈالے یا پھر بھیک کا راستہ اختیار کیا۔ ہم نے اپنے بچپن میں ایسے گداگر دیکھے ہیں جو کندھے پر کپڑے کا ایک جھولا ڈالے ہوتے۔شیرٹی کے سائیں بابا جیسے یہ مسلم و غیر مسلم فقیر ایک جیسے نظر آتے۔ ان دنوں ہم انہیں تھوڑا سا آٹا دیدیا کرتے۔ یہ گداگر زیادہ تر جمعرات کو آتے اور لوگ اپنے مرحومین کے ایصال ثواب کی نیت سے جمعرات کو جو خاص کھانا پکاتے وہ ان فقیروں کو دے دیتے۔ یہ فقیر بڑے قناعت پسند تھے۔ جو مل جاتا قبول کرتے، سب کو دعا دیتے۔ یہ مخصوص پنجابی منقبتیں گایا کرتے۔ ان شانت اور صابر فقیروں کے ساتھ ایک گروہ کوڑھوں کا تھا۔ یہ اپنا تعلق صدیوں پہلے کے بوٹا کوڑھا کے ساتھ ملاتے ہیں۔ بوٹا کوڑھ کے مرض میں مبتلا شخص تھا۔ اسے یہ مرض کسی گناہ کی پاداش میں لگا۔ لمبے عرصے تک کوڑھ میں رہنے کی وجہ سے اس کا خاندان اور دوست اسے چھوڑ گئے۔ وہ بھیک مانگ کر گزارا کرتا۔ آخر اللہ نے اس کی توبہ قبول کی اور اسے مستجاب الدعا بنا دیا۔ آج بھی کئی بھکاری خود کو بوٹا کوڑھا بتا کر بھیک مانگتے ہیں۔ زمانہ بدلا ہے تو اس کا اثر گداگروں کے گروہوں پر بھی پڑا۔ اب گلیوں محلوں میں کسی مخصوص دن کے بنا بھکاری دروازہ آن کھٹکٹاتے ہیں۔ وقت بھی مقرر نہیں، کئی نے سپیکر کا انتظام کیا ہوتا ہے، درد بھری آواز میں کوئی نعت یا مرحوم ماں باپ کی یاد میں اشعار پڑھے جا رہے ہوتے ہیں۔ فقیر اب بھکاری بن گئے ہیں۔ روحانی روایت خالص مادہ پرستی میں ڈھل گئی ہے۔ بھکاریوں میں کوئی خودنوشت لکھنے کی روایت ہوتی تو ہمارے پاس ایک منفرد ادبی ذخیرہ ہوتا۔ آٹا مہنگا ہے، نہ ہم آٹا دیتے ہیں نہ بھکاری کے پاس کوئی تھیلا ہوتا ہے۔ اب اس نے قمیض کے نیچے آٹھ دس جیب والی پھتوئی پہنی ہوتی ہے۔ کسی میں سو سو کے نوٹ، کسی میں پانچ سو، کسی میں 50، اور کسی میں بیس اور دس کے نوٹ۔ سماج کا چلن یہ ہو چکا کہ جو کام پیسے دیتا ہو لوگ اس کو اختیار کر لیتے ہیں۔ بھکاریوں کی تعداد اسی وجہ سے بڑھی ہے کہ اب انہیں زندہ رہنے کے لیے بھیک نہیں چاہئے بلکہ یہ بھیک کو اپنا لائف سٹائل بنا چکے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے بچیاں، عورتیں، جوان مرد اور ہیجڑے، سب بھیک مانگ رہے ہیں۔ آپ ذرا معذرت کر کے دیکھیں کئی بددعائوں پر اتر آئیں گے۔ بہت سے تو اس سے بھی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ سیاستدانوں، پولیس افسران اور بدمعاشوں نے بھکاریوں کے ٹھیکیدار رکھے ہوئے ہیں۔ اس سے بچوں کو اپاہج بنانے اور ان کے اغوا جیسے جرائم بڑھنے لگے ہیں۔ معلوم نہیں فیصلہ کرنے والے کبھی اس معاملے کو وسیع تناظر میں دیکھتے بھی ہیں یا پھر انہیں ٹھنڈے کمرے کی کھڑکی سے باہر کا موسم بھی ٹھنڈا ٹھار ہی لگتا ہے، جہاں ضرورتوں نے آگ لگائی ہوئی ہے”۔

Leave a Comment