Saudi girls education remains one of the most talked-about yet misunderstood subjects when it comes to Muslim societies. While stereotypes about the oppression of women dominate Western media narratives, the lived experiences of many Muslim women—particularly in the Middle East—reveal a complex interplay of religion, culture, and evolving social norms.
Misconceptions vs. Realities in Muslim Women’s Education
When people hear about Saudi girls education, they often imagine a rigid, male-dominated society where women have no voice. This narrative, however, often fails to distinguish between Islamic teachings and tribal or cultural restrictions. Historically, Islam granted women rights to inheritance, divorce, ownership, and—most importantly—education. Yet, over time, local customs and patriarchal interpretations have overshadowed these principles in many Muslim societies.
Nine Parts of Desire: A Window into Hidden Struggles
Australian journalist and Pulitzer Prize-winning author Geraldine Brooks explores these contradictions in her book Nine Parts of Desire. Based on six years of reporting in the Middle East, Brooks profiles Muslim women, scientists, artists, officials, and even divorcees, who challenge prevailing norms while navigating the boundaries of their societies.
The book’s title, inspired by an old saying that claims “God gave nine parts of desire to women and only one to men,” is a powerful critique of both religious misinterpretation and cultural double standards. It serves as an important commentary on how Saudi girls education is often caught between the liberating message of the Qur’an and conservative societal structures.
Queen Iffat: A Pioneer of Change in Saudi Arabia
One of the most inspiring figures in this struggle is Queen Iffat, wife of King Faisal of Saudi Arabia. Born and raised in Turkey, she envisioned a future where Saudi girls education would not be a taboo but a right. In 1956, at a time when no schools existed for girls in the Kingdom, she founded Dar Al-Hanan, an orphanage-turned-school that marked the beginning of formal female education in the country.
Queen Iffat advocated for education by referencing the Qur’an and the legacy of Umme Salma (RA)—a woman companion of the Prophet Muhammad ﷺ who engaged in public debate and religious discourse. Despite fierce public resistance, including mass protests in 1963, her commitment to female literacy laid the groundwork for today’s growing number of educated Saudi women.
Resistance and Reform: From 1950s to Present Day
Even with royal support, progress was slow. By 1980, only 55% of Saudi girls were attending school, and a mere 20% reached the secondary level. Today, these figures have improved significantly; however, cultural barriers persist. In many schools, male and female students remain strictly segregated, and even female school principals often communicate with male officials through closed-circuit TV to avoid direct interaction.
Yet, institutions like Dar al-Fikr are introducing modern curricula, including automotive mechanics for girls, pushing the boundaries of traditional gender roles. These steps represent both the struggles and the resilience of women navigating Saudi girls education in a deeply patriarchal setting.
Challenging Western Narratives
One of Geraldine Brooks’ central achievements in Nine Parts of Desire is her ability to challenge Western assumptions. She urges readers not to view Muslim women solely through the lens of the veil or oppression, but to understand the religious empowerment Islam offers, and how cultural misinterpretations often veil that empowerment.
The narrative of Saudi girls education is not a story of helplessness. It’s a story of quiet revolutions, courageous women, and deep-rooted faith being reclaimed in classrooms and communities alike.
If you’re interested in reading this book, click the link below for a free download.
https://drive.google.com/file/d/1bGCcOdmTvkyLV4X2xlDlm1x6z8EobrhM/view?usp=sharing
If you’d like to listen to this book in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.
You can also watch the same video on these social media platforms.
مسلمان معاشروں میں خواتین کی آزادی اور ان پر عائد پابندیوں سے متعلق عمومی تاثر اکثر غیر متوازن اور غلط فہمیوں پر مبنی ہوتا ہے، خاص طور پر جب اسے غیر اسلامی روایات یا مغربی میڈیا کے تناظر میں دیکھا جائے۔ حالانکہ اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں ایسی روشن مثالیں ملتی ہیں، جیسے اُم عمارہؓ اور اُم سلمہؓ جیسی صحابیات جنہوں نے جنگوں میں شرکت کی، فتویٰ دیا اور سماجی مسائل پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے خواتین کو وہ عزت اور شرکت دی جو اُس وقت کے دیگر معاشروں میں ناپید تھی۔ تاہم بعد ازاں مختلف مسلم معاشروں میں ثقافتی، قبائلی اور مردانہ تعبیرات نے خواتین کے کردار کو محدود کیا۔ اسی تناظر میں معروف آسٹریلوی صحافی و ادیبہ جیراٹین بروکس کی کتاب
Nine Parts of Desire
ایک اہم تحقیقی کاوش کے طور پر سامنے آتی ہے، جو مسلم دنیا کی خواتین کے حوالے سے گہرا مشاہدہ اور بصیرت فراہم کرتی ہے۔
جیراٹین بروکس آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی پُلٹزر انعام یافتہ مصنفہ اور سابق صحافی ہیں۔ انہوں نے مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا میں وال سٹریٹ جرنل کے نمائندے کی حیثیت سے برسوں کام کیا، اور اس دوران انہوں نے مسلم معاشروں میں خواتین کے مقام، ان کے چیلنجز، معاشرتی بندشوں اور سماجی ارتقا کو قریب سے دیکھا۔ اُن کی تحریریں تاریخ، مشاہدے اور انسانی جذبات کا حسین امتزاج ہیں۔ ان کی نان فکشن کتاب
Nine Parts of Desire
نے عالمی سطح پر انہیں ایک معتبر آواز عطا کی، جبکہ ان کے فکشن ناول
March
کو 2006 میں
Pulitzer Prize for Fiction
سے نوازا گیا۔
Nine Parts of Desire
میں بروکس نے اپنے چھ سالہ صحافتی تجربے کی بنیاد پر مشرقِ وسطیٰ کی مسلم خواتین کی زندگیوں کا گہرائی سے مشاہدہ پیش کیا ہے۔ کتاب کا عنوان ایک قدیم روایت سے ماخوذ ہے:
“خالق نے جنسی خواہش کے دس حصوں میں سے نو خواتین کو دیے”۔
اس کتاب میں ان خواتین کا تذکرہ کیاگیاہے، جو سائنسدان، حکومتی عہدیدار، طلاق یافتہ، یا فنونِ لطیفہ سے وابستہ ہیں۔ بروکس قرآن و حدیث کے اصل پیغام اور موجودہ ثقافتی تعبیرات کے تضاد کو نمایاں کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اسلام نے تو عورتوں کو حقِ وراثت، طلاق اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق دیے، لیکن ان پر بعد میں ثقافتی قدغنیں لگائی گئیں۔ کتاب میں عورت کی حالتِ زار کے ساتھ ساتھ اُن تحریکات کا بھی ذکر ہے جو خواتین کو بااختیار بنانے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ ان میں سے کچھ کوششیں شاہ فیصل مرحوم کی اہلیہ ملکہ عفت نےبھی سعودی عرب میں لڑکیوں کی تعلیم کےلیےکیں، جن کا تذکرہ آگے آرہاہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب مغرب میں موجود مسلم خواتین سے متعلق غلط فہمیوں کو چیلنج کرتی ہے اور مسلمان معاشروں میں مثبت تبدیلی کی جدوجہد کو اجاگر کرتی ہے۔
اس کتاب کا اردوترجمہ جناب یاسر جواد نے”پردے کے پیچھے” کےنام سےکیاہے۔
جس کے ایک باب “دانش کی جانب” سے ایک اقتباس بزمِ خواتین کی ویڈیو میں پڑھ کرسنایاگیاہے، جس میں سعودی عرب میں خواتین کی تعلیم کے ابتدائی مراحل کو بیان کیا گیا ہے۔ اقتباس کے مطابق 1956ء سے پہلے سعودی عرب میں لڑکیوں کے لیے کوئی اسکول موجود نہ تھا۔ یہ کارنامہ شاہ فیصل کی اہلیہ عفت نے انجام دیا جن کی پرورش ترکی میں ہوئی تھی۔ وہ قرآن کی روشنی میں عورتوں کی تعلیم کی وکالت کرتی تھیں اور یتیم خانہ دار الحنان کے ذریعے بچیوں کی تعلیم کا آغاز کیا، تاکہ علماء کے اعتراضات سے بچا جا سکے۔
عفت نے ام المومنین اُم سلمہؓ کا حوالہ دے کر قرآن کی اُن آیات کو بنیاد بنایا جن میں مردوں اور عورتوں دونوں کو یکساں اجر کی نوید دی گئی ہے۔ ان کوششوں کے باوجود عوامی ردعمل سخت تھا۔ 1963ء میں ایک اسکول کے قیام کے خلاف شدید احتجاج ہوا اور شاہ فیصل کو نیشنل گارڈ بلانا پڑا۔ کئی برس تک لڑکیوں کی تعلیم محدود رہی۔ 1980ء تک صرف 55 فیصد بچیاں اسکول جا رہی تھیں اور ثانوی سطح پر صرف 20 فیصد پہنچ پاتی تھیں۔
اس اقتباس میں دارالفکر جیسے جدید نجی اسکولوں کا بھی ذکر ہے جہاں لڑکیاں موٹر مکینکس جیسے غیر روایتی کورسز بھی کرتی ہیں، حالانکہ اُنہیں گاڑی چلانے کی اجازت نہیں۔ یہاں کی ہیڈ مسٹریس باسلہ الحمود کی قیادت میں تعلیم کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا گیا ہے، لیکن مرد و زن کی علیحدگی کی روایات اب بھی غالب ہیں۔ حتیٰ کہ باسلہ بورڈ میٹنگز میں مردوں سے بات کرنے کے لیے کلوزڈ سرکٹ ٹی وی استعمال کرتی ہیں، تاکہ براہ راست اختلاط سے بچا جا سکے۔ اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ سعودی معاشرے میں تعلیم یافتہ خواتین نے کس ہمت، فہم اور بصیرت کے ساتھ تبدیلی کی بنیاد رکھی، باوجود اس کے کہ وہ ایک نہایت روایتی ماحول میں رہتی تھیں۔
Nine Parts of Desire
نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کی مسلم خواتین کی جدوجہد اور ان پر عائد رکاوٹوں کا تحقیقی بیان ہے بلکہ یہ ایک ایسا فکری آئینہ بھی ہے جو مغربی قارئین کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اسلام کو محض نقاب اور پردے کے محدود تناظر میں نہ دیکھیں۔ جیراٹین بروکس نے اس کتاب کے ذریعے اسلامی تعلیمات اور ثقافتی بندشوں کے درمیان فرق کو اجاگر کیا ہے، اور خواتین کی اصل شناخت، کردار اور ترقی کی خواہش کو علمی، مشاہداتی اور ہمدردانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ آوازِ اردو کی آواز میں پیش کردہ اقتباس اس جدوجہد کی جھلک ہے، جو ایک روایتی معاشرے میں عورتیں تعلیم و شعور کی شمع جلانے کے لیے کرتی رہی ہیں۔