Knowledge Without Morality: A Dangerous Path, Noam Chomsky Warns

Knowledge without morality is a central challenge of our era. While science and technology advance rapidly, humanity continues to face war and moral decline. Professor Noam Chomsky, in his Islamabad lecture, warned that progress without ethical guidance endangers society, as we learn more about destruction than construction.

This thought-provoking discussion was captured in a column by Irfan Siddiqui, later included in his book Naqsh-e-Khayal. The column was originally published in Daily Nawa-e-Waqt on November 29, 2001, and has also been presented by AwazeUrdu in its video readings.

The Core Message: Knowledge Without Morality

Professor Chomsky observed that “we live in a world of knowledge, but without wisdom.” He emphasised that humanity has mastered the science of killing far more than the art of living. We possess nuclear weapons that make us giants in destructive power, but we remain dwarves in moral values.

This is knowledge without morality—where technological prowess overwhelms ethical responsibility. Chomsky’s warning is urgent as ongoing conflicts show the cost when knowledge leads progress, not morality.

Technology Without Conscience

As Irfan Siddiqui notes, when knowledge is detached from ethics, nations like the USA, Britain, and Russia become nuclear giants but moral dwarves. The glitter of science and technology, when not guided by a living conscience, turns into a tool of destruction.

In his Islamabad lecture, Chomsky stressed that we know much about how to wage war but little about how to establish peace. This imbalance defines the tragedy of our modern civilization. Afghanistan’s devastation, for example, cannot be blamed solely on the Taliban. It is the outcome of science and technology deprived of wisdom and humanity.

America’s Double Standards

Chomsky boldly pointed out the hypocrisy of American power. The September 11 attacks became historic not merely due to the scale of destruction, but because, for the first time since 1814, the U.S. itself became the target of attack. For two centuries, the U.S. had been invading others, fueling wars, and destroying local populations. Now, when the cannons turned toward it, the world was suddenly asked to redefine terrorism and wage a “war on terror.”

This narrative, as Irfan Siddiqui highlights in Naqsh-e-Khayal, unmasks the reality of knowledge without morality—knowledge used to dominate and oppress rather than to uplift and protect humanity.

The Silence of the World

The column also laments the silence of global institutions. While atrocities were committed in places like Afghanistan and Qala-i-Jangi, the United Nations remained asleep, and Western media engaged in cosmetic surgery to cover America’s brutal face. Billions were spent on portraying the Taliban’s crimes, yet little was said about U.S.-led barbarity.

This silence reveals how knowledge without morality empowers the oppressor and weakens the oppressed. For Chomsky, it is the responsibility of intellectuals to speak truth to power, to expose the destructive arrogance of so-called advanced nations.

Irfan Siddiqui’s Reflection

Through his insightful writing, Irfan Siddiqui connects Chomsky’s observations to the larger question of civilization itself. His column in Daily Nawa-e-Waqt, later preserved in Naqsh-e-Khayal and revived by AwazeUrdu, warns that when knowledge becomes divorced from ethics, it turns into a Frankenstein that endangers both humanity and other living beings.

Siddiqui argues that it is the duty of thinkers and writers to repay the debt of history by constantly challenging tyranny, instead of normalizing the bloodshed of the innocent. His closing words suggest gratitude to Chomsky, while also expressing doubt whether Pakistani intellectuals will embrace his revolutionary message.

Conclusion

Knowledge without morality remains a dangerous path, as Noam Chomsky has repeatedly warned. The words preserved by Irfan Siddiqui in Naqsh-e-Khayal are not just a record of the past but a timeless reminder for our present and future. Nations that glorify science without ethics may achieve military supremacy, but they lose their humanity. The true greatness of mankind lies not in building weapons, but in upholding values that sustain life, dignity, and justice.

If you’re interested in reading this book, click the link below for a free download.

https://drive.google.com/file/d/1yPceAYG3Peb9kwdDKJqZxgN2lfodHPDZ/view?usp=sharing

If you’d like to listen to this book in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.

You can also watch the same video on these social media platforms.

Unless knowledge is guided by morality, humanity will continue to march toward destruction rather than peace.

دنیا میں بہت سے اہلِ علم نے انسانی شعور کو بیدار کرنے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کیں، لیکن پروفیسر نوم چومسکی ان میں ایک نمایاں نام ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ ظلم، استبداد اور طاقت کے نشے میں چور قوتوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔ چومسکی کا مؤقف یہ تھا کہ محض سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی انسانیت کے لیے فلاح کا باعث نہیں بن سکتی جب تک اسے اخلاقیات اور روشن ضمیری کے تابع نہ کیا جائے۔ ان کے نزدیک وہ قومیں جو ایٹمی طاقت اور عسکری جنون میں تو عظیم ہیں لیکن اخلاقی اعتبار سے بانجھ ہیں، وہ دراصل انسانیت کے لیے ایک خطرہ ہیں۔ ان کی یہی سچائی اور بے باکی انہیں عالمی ضمیر کی آواز بناتی ہے۔

عرفان الحق صدیقی پاکستان کے معروف استاد، ماہرِ تعلیم، کالم نگار، مصنف، شاعر اور دانشور ہیں جنہوں نے تدریس، صحافت اور سیاست کے میدانوں میں گہرا اثر چھوڑا۔ راولپنڈی میں پیدا ہونے کے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے تعلیم و تربیت میں بیچلر اور اردو زبان میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 1963 میں انہوں نے تدریسی زندگی کا آغاز کیا اور اٹھارہ برس ایف جی سرسید کالج، راولپنڈی میں پڑھاتے رہے۔ بعد ازاں صحافت کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا اور قومی ڈائجسٹ، تکبیر، نوائے وقت اور جنگ میں کالم لکھے۔ 1998 میں صدرِ پاکستان کے پریس سیکریٹری بھی رہے۔ وہ اپنے سنجیدہ، مؤثر اور بامعنی کالموں کی وجہ سے ہمیشہ معتبر سمجھے گئے اور ادب و صحافت کے سنگم پر نمایاں مقام حاصل کیا۔

عرفان صدیقی کے کالموں کا ایک اہم انتخاب “نقشِ خیال” کے نام سے کتابی صورت میں سامنے آیا۔ اس کتاب میں 2001ء کے بعد کے حالات، امریکی یلغار، افغانستان کی تباہی اور طالبان سے متعلق ابہامات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس خون آشام سال میں ایک فوجی ڈکٹیٹر نے امریکی دباؤ کے تحت قومی خودمختاری کو قربان کیا اور افغانستان پر ظلم کی ایک نئی داستان رقم ہوئی۔ “نقشِ خیال” انہی لمحوں کی گواہی ہے، جو چار سو پانچ صفحات پر پھیلے ان کالموں میں محفوظ ہو گئی۔ ان کالموں میں حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ ادبیت کی وہ چاشنی بھی ملتی ہے جو انہیں محض صحافتی تحریروں سے بلند کر کے فکری سرمایہ بنا دیتی ہے۔

اسی پس منظر میں 29 نومبر 2001ء کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہونےوالا درج ذیل کالم آوازِاردونے اپنی ویڈیو میں پڑھ کرسنایاہے۔

“جتنا علم کمپیوٹر کے پاس ہوتا ہے، دنیا کا کوئی شخص اس کے ہزارویں حصے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ یہ علم اسے انسان ہی عطا کرتا ہے لیکن دنیا بھر کے علوم وفنون اس کی گھٹی میں ڈال دینے کے با وجود وہ کمپیوٹر کو انسانیت کی اقدار اور اخلاقیات سے بہرہ مند نہیں کر سکتا جو انسان کے جو ہر تخلیق میں شامل ہیں اور جن کی پاسداری ہی انسان کو فضیلت عطا کرتی ہے۔ یہ بحث دوبارہ چھیڑنے کی ضرورت نامور امریکی دانشور پروفیسر نوم چومسکی کی عالمانہ گفتگو کی وجہ سے محسوس ہوئی ۔ شاید ہمارے کچھ دانشور ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوم کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد کی سوچ کو اہمیت دینے کے لئے تیار ہو جائیں۔

اسلام آباد میں اپنے لیکچر کے دوران پروفیسر چومسکی نے کہا:

“ہماری دنیا علم کی دنیا ہے لیکن دانش سے محروم ہے ۔ یہ زندہ ضمیر سے عاری قوت کی دنیا ہے۔ ہم زندہ رہنے کے علم سے کہیں زیادہ ہلاک کرنے کا علم جانتے ہیں ۔ ہم امن سے زیادہ جنگوں کا علم رکھتے ہیں ۔ ہم جوہری ہتھیاروں کے اعتبار سے جن بن گئے ہیں لیکن اخلاقی اعتبار سے بونے ہیں ۔

یہ ہے وہ المیہ جو مجرد علم کے حصول کو انسانی زندگی کا کمال اور قوموں کی ترقی کا نقطہ عروج قرار دینے والوں کی سمجھ میں نہیں آرہا۔ علم کو اخلاقیات سے الگ کر دیا جائے اور ٹیکنالوجی کی چکا چوند روشن ضمیری سے عاری ہو جائے تو پھر امریکہ، برطانیہ اور روس جیسے ایٹمی جن اور اخلاقی بونے وجود میں آتے ہیں۔ انسان کی بڑائی اور برتری یہی ہے کہ وہ علم کو اخلاقیات کے ضابطوں کے تابع رکھے اور جب علم ، انسان کشی، ہلاکت آفرینی ، درندگی اور فرعونیت پر اتر آئے اور غریب لوگ ٹیکنا لوجی سے محرومی کے باعث اس کا مقابلہ نہ کر سکیں تو پھر دنیا بھر کے دانشوروں پر لازم آتا ہے کہ وہ صاحب علم اور ترقی یافتہ عفریت کے چہرے کو بے نقاب کریں اور گوریلا جنگ کے اندازمیں اس کومسلسل زخم لگاتے رہیں ۔

افغانستان میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری طالبان پر نہیں ، اس علم ، سائنس اور ٹیکنالوجی پر آتی ہے جو زندہ ضمیر اور دانش انسانی سے محروم ہے ۔ پروفیسر چومسکی نے مزید کہا ہے کہ انسان نہ صرف دوسری زندہ مخلوق کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے بلکہ اس نے اپنی سنگدلانہ اور ظالمانہ کارروائیوں سے بنی نوع انسان کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ امریکہ کی بیمار سوچ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے انہوں نے کہا 11 ستمبر کے واقعات اس لئے تاریخی اہمیت اختیار نہیں کر گئے کہ ان کی تباہ کاری کا حجم بہت زیادہ تھا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا نشانہ کون بنا ہے ۔ 1814 ء میں واشنگٹن پر برطانوی بمباری کے بعد امریکہ پر پہلی دفعہ حملہ ہوا ہے ۔ دو صدیوں میں امریکہ ہی دنیا بھر پر حملے کرتا اور مقامی آبادیوں کی ہلاکت میں ملوث رہا ہے ۔ پہلی مرتبہ توپوں کا رخ اس کی طرف مڑا ہے۔ اب دنیا کو خود ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا چاہئے کہ دہشت گردی کیا ہے؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نوعیت کیا ہے؟ اور انسانی بقاء کو کون سے خطرات لاحق ہیں ؟

پروفیسر چومسکی کی باتیں ایک ایسے شخص کی گواہی کا درجہ رکھتی ہیں جس نے امریکی تہذیب و سیاست کو بہت قریب سے دیکھا ۔ اس کی علمی فضیات اور اس کی ٹیکنالوجی کے معجزات کا مشاہدہ کیا اور پھر دوصدیوں پر محیط تاریخ میں اس کے کارناموں کو سامنے رکھتے ہوئے اسے پہچاننے کی کوشش کی۔ انہیں اپنی حق گوئی کی سزا بھی بھگتنا پڑی لیکن وہ اس رائے پر قائم رہے کہ اصل مسئلہ امریکہ کی سوچ کی کجی اور اس کی رعونت ہے۔ یہ بیماریاں ہر اس علم کا مقدر ہوتی  ہیں جو دانش اور روشن ضمیری سے محروم ہوتا ہے۔ پروفیسر چومسکی نے پاکستانی دانشوروں کی اس بلند پایہ تحقیق سے اتفاق نہیں کیا کہ جو قوم سائنس اور ٹیکنالوجی کی بلندیوں کو نہیں چھوتی ، اسے قومی غیرت وحمیت سے دست کش ہو کر امریکہ کے سیاسی حرم کی کنیزیں بن جانا چاہیے ۔ امریکی دانشور کا کہنا ہے کہ یہ کام بڑا آسان ہے کہ کچھ ملکوں کو چن لیا جائے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ان کا بھرکس نکال دیا جائے ۔ عالمی پریس پر نظر ڈالے بغیر اس بات کا یقین کر لینا چاہیے کہ کوئی ان معاملات کو زیر بحث نہیں لائے گا۔

آج بالکل یہی ہو رہا ہے۔امریکہ جس ملک کو چاہے دہشت گرد قرار دے ڈالے ۔ جس کاچاہے بھر کس نکال دے۔ کوئی اس سے سوال کرنے والا نہیں ۔ افغانستان میں جو کچھ وہ کر رہا ہے اور مزار شریف کے قلعہ جنگی میں اس کی رہنمائی میں انسانی خون سے جو ہولی کھیلی گئی وہ بربریت کا بدترین مظاہرہ ہے لیکن دنیا گنگ ہے ۔ اقوام متحدہ گہری نیند سو رہی ہے ۔ وہ ذرائع ابلاغ جو طالبان کے مظالم کی عکاسی پر کروڑوں ڈالر خرچ کر رہے تھے، مگر وہ امریکی چہرے کی پلاسٹک سرجری میں مصروف ہیں ۔ عالمی برادری مطمئن ہے کہ مسلمان نشانہ بن رہے ہیں اور مسلمانوں کے فرمان روا اپنی اپنی مصلحتوں کی بکل مارے بیٹھے ہیں۔

اس سناٹے میں دانشوروں کو ہی تاریخ کا قرض چکانا ہوگا۔ اگر وہ مظلوم کے خون ناحق سے نقش و نگار بنانے کی بجائے خدا کے لہجے میں بولنے والے ظالموں کی رعونت پر پیہم ضربیں لگاتے رہیں تو شاید ظلم اتنا معتبر نہ رہے۔

تھینک یو پروفیسر چومسکی ممکن ہے آپ کا پیغام علم کے علمبر دار کچھ انقلابیوں کی سوچ بدل ڈالے۔ اگرچہ پاکستان کی حد تک امکان کم ہی نظر آتا ہے”۔

پروفیسر نوم چومسکی کی آواز دراصل انسانیت کی آواز ہے، جو علم کو طاقت کے بجائے اخلاقی ذمہ داری کے تابع دیکھنا چاہتی ہے۔ عرفان صدیقی نے اپنے کالم میں نہ صرف اس سچائی کو اجاگر کیا بلکہ پاکستانی قارئین کو یہ باور کرایا کہ ظلم کے خلاف قلم اٹھانا دانشوروں کی اولین ذمہ داری ہے۔ آج جب دنیا ایک بار پھر طاقت کے نشے میں بربریت کے مناظر دیکھ رہی ہے، نوم چومسکی اور عرفان صدیقی جیسے اہلِ قلم کی یہ صدا ہمیں یاد دلاتی ہے کہ علم اگر ضمیر کے بغیر ہو تو تباہی لاتا ہے، اور اگر انسانیت کے ساتھ جڑ جائے تو دنیا کو امن و انصاف کی راہ دکھا سکتا ہے۔

Leave a Comment