Maritime History of Islam: Forgotten Truths Revealed

Maritime history has long played a pivotal role in shaping civilizations, economies, and cultural exchanges worldwide. From the earliest days of human exploration, seas and oceans were not merely vast bodies of water but powerful highways that connected distant lands. The maritime history of Islam, particularly during the Prophetic era, is often overlooked, despite its undeniable significance in the spread of trade, knowledge, and faith. Forgotten truths about this era reveal that Muslim engagement with the seas was not accidental but a natural extension of Arabia’s ancient seafaring traditions.

Maritime History and the Rise of Islam

When Islam emerged from the Arabian Peninsula, Muslims did not confine themselves to deserts and oases. Arabia was surrounded on three sides by water, making maritime routes central to its people’s lives. Trade between Arabia, India, China, and Rome was already flourishing through the seas long before the advent of Islam. After the advent of Islam, the same routes were transformed into corridors of both commerce and cultural exchange.

The maritime history of Islam shows that the companions of the Prophet ﷺ not only engaged in battles and migrations over land but also frequently used sea voyages for trade, travel, and even religious missions. Reports from early Islamic sources confirm that Arab traders and travelers journeyed eastward as far as India and China, while westward they sailed toward the Roman Empire.

Maritime Voyages in the Prophetic Era

One of the forgotten truths in the maritime history of Islam is the fact that the Prophet ﷺ himself was consulted about issues relating to sea travel. Several narrations mention companions asking questions about the use of seawater for purification, or the permissibility of maritime trade goods. Early migrations, such as the famous Hijrah to Abyssinia, also took place via the Red Sea route.

Imam Hasan al-Basri narrates from Samura ibn Jundub that the companions engaged in maritime trade during the lifetime of the Prophet ﷺ. Similarly, authentic reports from Sahih Muslim mention that companions approached the Prophet ﷺ about the use of animal fat for ships and oil lamps. These references highlight that seafaring was not alien to the Muslims of that time; it was a lived reality.

Maritime Links Between Arabia and India

The scholarly research of Qazi Athar Mubarakpuri, particularly his book Arab wa Hind Ahd-e-Risalat Mein, sheds light on the depth of Arab-Indian relations during the Prophetic era. His findings dismantle common misconceptions, such as the claim that companions reached India during the Prophet’s lifetime. Instead, he confirms that such interactions took place during the Caliphate of Umar ibn al-Khattab (RA).

Nevertheless, the maritime history of Islam illustrates that trade between India and Arabia had already been thriving. Indian goods such as spices, textiles, and perfumes were highly prized in Arabian markets. Likewise, Arab merchants carried Islamic culture, values, and ideas back across the seas, laying the foundation for centuries of Indo-Arab cultural ties.

Maritime History Beyond Trade

The seas were not only economic lifelines but also channels of migration and diplomacy. During the Prophetic era, groups of Yemeni Muslims traveled by sea with the intention of reaching Madinah but were redirected by winds to Abyssinia, where they were warmly received by fellow Muslim migrants. These Muslims later rejoined the Prophet ﷺ at Khaybar, earning the name “Ahl al-Safinah” (People of the Ship).

Islamic texts also mention the maritime journey of Tamim al-Dari (RA), who, along with others, was caught in storms and drifted to unknown islands in the Mediterranean. Such stories enrich the maritime history of Islam, showing how seas were both perilous and full of opportunity.

Why This Forgotten Maritime History Matters

Studying Islam’s maritime history reveals Muslims as active agents in global networks, not restricted by deserts. The main argument: the seas enabled the exchange and spread of faith, culture, and values, showing early Islam’s global impact.

The work of historians like Qazi Athar Mubarakpuri is invaluable because it corrects misconceptions and provides authentic evidence of how Islam’s message and Muslim civilization reached far beyond Arabia. The forgotten truths of this maritime heritage remind us that Islam was never isolated; it was global from its very inception.

Conclusion

The maritime history of Islam proves a legacy of exploration and broad connectivity. Early migrations, commerce, and daily seafaring demonstrate Islam’s active engagement with the seas. These often-forgotten truths reinforce the main argument: maritime routes were fundamental in spreading Islam’s culture and message across continents.

If you’re interested in reading this book, click the link below for a free download.

https://drive.google.com/file/d/10EDsiiPAs8ob_sLlZjNs4MNl3CGZ3bj7/view?usp=sharing

If you’d like to listen to this book in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.

You can also watch the same video on these social media platforms.

دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ زمانۂ قدیم سے ہی بحری اسفار انسانی زندگی میں غیر معمولی اہمیت رکھتے آئے ہیں۔ سمندروں نے نہ صرف تجارت اور معیشت کے دروازے کھولے بلکہ تہذیبوں کو قریب کیا، علوم و فنون کو ایک خطے سے دوسرے خطے تک پہنچایا اور مذاہب و افکار کی ترسیل کا ذریعہ بھی بنے۔ جس قوم نے سمندروں پر عبور حاصل کیا، اس نے دنیا میں اپنی سیاسی اور تمدنی برتری قائم کی۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسلام کا سورج جزیرۂ عرب سے طلوع ہوا تو مسلمانوں نے خشکی کے ساتھ ساتھ سمندروں میں بھی اپنی موجودگی درج کرائی۔ صحابۂ کرامؓ نے دعوت و جہاد کے ساتھ ساتھ تجارت اور ہجرت کے لیے سمندری سفر اختیار کیے اور اس طرح عربوں کی قدیم جہاز رانی کی روایت کو مزید جِلا بخشی۔ عربوں کے بحری اسفار کا سلسلہ مشرق میں چین اور ہندوستان تک اور مغرب میں روم تک پھیلا ہوا تھا۔

اسی پس منظر میں قاضی اطہر مبارکپوری کی اہم تصنیف عرب و ہند عہدِ رسالت میں کا مطالعہ نہایت مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے عہدِ رسالت میں عرب و ہند کے تعلقات، تجارتی روابط اور بحری اسفار پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ اس کتاب کے ایک باب “عہدِ رسالت میں بحری اسفار” کو آوازِاردو نے اپنی ایک ویڈیو میں پڑھ کر سنایا ہے، جو نہایت بصیرت افروز ہے۔

قاضی اطہر مبارکپوری بیسویں صدی کے نامور مورخ، سیرت نگار اور محقق تھے۔ وہ 1916ء میں مبارکپور (ضلع اعظم گڑھ، اترپردیش) میں پیدا ہوئے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ان کی علمی زندگی زیادہ تر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ و تہذیبِ اسلامیہ میں تدریس و تحقیق سے وابستہ رہی۔ وہ عرب و ہند کے تعلقات، اسلامی تاریخ اور سیرتِ نبوی کے موضوعات پر اپنی گہری بصیرت اور تحقیقی انداز کے لیے پہچانے جاتے تھے۔ ان کی تصانیف میں عرب و ہند عہدِ رسالت میں، اسلامی تاریخ کی تدوین، خلافتِ راشدہ اور دیگر اہم کتب شامل ہیں۔ علمی خدمات کے باعث وہ نہ صرف برصغیر بلکہ عرب دنیا میں بھی احترام کی نگاہ سے دیکھے گئے۔

عرب و ہند عہدِ رسالت میں پہلی مرتبہ 1965ء میں شائع ہوئی۔ مصنف کے بیان کے مطابق یہ اُن مضامین کا مجموعہ ہے جو انہوں نے مختلف رسائل و جرائد میں عہدِ رسالت کے دور میں عرب و ہند کے تعلقات کے حوالے سے لکھے تھے۔ اس میں ہندوستان اور عرب دنیا کے تجارتی و بحری روابط، ان مصنوعات کی شہرت جنہیں عرب تاجر ہندوستان سے لاتے تھے، اور ان راستوں کا ذکر ہے جن کے ذریعے یہ تعلقات قائم ہوئے۔ ساتھ ہی مصنف نے بعض تاریخی مغالطوں کی تردید بھی کی ہے، مثلاً یہ کہ عہدِ رسالت میں کسی صحابی کے ہندوستان آنے کی کوئی معتبر روایت موجود نہیں ہے۔ البتہ خلافتِ فاروقی کے دور میں اس کی شہادت ملتی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جو اس کتاب کو عرب و ہند کے قدیم روابط پر ایک مستند تحقیقی ماخذ کی حیثیت عطا کرتا ہے۔

کتاب کے باب “عہدِ رسالت میں بحری اسفار” کا درج ذیل اقتباس آوازِاردو نے اپنی ایک ویڈیو میں پڑھ کر سنایا ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ اقدس میں کسی صحابی کے باقاعدہ دعوت لے کر ہندوستان آنے کی صحیح اور مستند روایت نہیں ملتی، البتہ آپ کی وفات کے چار پانچ سال بعد عہدِ فاروقی میں اس کی روایت موجود ہے۔

عہدِ رسالت میں بحری اسفار

مگر اس بحث سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ رسالت میں صحابۂ کرام کے بحری اسفار پر مختصر سی روشنی ڈالی جائے اور بتایا جائے کہ اس زمانہ میں عام طور پر بحری سفر کا رواج تھا، کیونکہ یورپ کے مستشرقین جو اسلام کے ہر مجد و شرف کے منکر ہیں، اس حقیقت کا بھی انکار کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عرب کا ملک تین طرف سے سمندروں سے گھرا ہوا ہے اور قدیم زمانہ سے عربوں میں غیر ممالک سے تعلق بحری راستوں سے قائم تھا اور ان کے تجارتی اور بحری اسفار مشرق میں چین تک اور مغرب میں روم تک جاری تھے۔ اسی طرح عہدِ رسالت میں صحابۂ کرام کے بحری اسفار کا تجارتی سلسلہ قائم رہا۔ امام حسن بصری نے حضرت سمرہؓ سے روایت کی ہے:

“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بحری تجارت کیا کرتے تھے۔”

ایک مرتبہ شکاریوں کی ایک جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر عرض کیا:

“ہم لوگ سمندری سفر کرتے ہیں اور تھوڑا سا پانی اپنے ساتھ لے لیتے ہیں۔”

صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ:

“اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی خرید و فروخت حرام قرار دے دی ہے۔”

تو اس وقت لوگوں نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، مردار کی چربی کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ کیونکہ اس کو کشتیوں میں لگانے اور چراغ جلانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: “نہیں، وہ بھی حرام ہے۔”

خطیب بغدادی نے موضح اوہام الجمع والتفریق میں مسلم بن ابی عمران اسدی کے تذکرے میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت کی ہے:

ایک عورت نے سمندری سفر کیا اور ایک مہینہ روزہ رکھنے کی منت مانی لیکن اسے پورا کرنے سے پہلے ہی وفات پا گئی۔ اس کی بہن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مسئلہ دریافت کرنے آئی تو آپؐ نے فرمایا: “تم اس کی طرف سے روزہ رکھو۔”

ان چند احادیث اور عہدِ رسالت کے واقعات سے اس دور کے بحری سفر کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ نیز احادیث و سیر کی کتابوں میں عہدِ رسالت کے بحری اسفار کے تذکرے موجود ہیں۔ چنانچہ نبوت کے پانچویں سال صحابہ کی ایک جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و مشورہ سے بحری راستہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ ۶ ہجری تا ۷ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن امیہ ضمریؓ کو نامۂ مبارک دے کر حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس بھیجا۔ یمن کے قبیلۂ اشعر کے تقریباً بدَن مسلمان مدینہ کے ارادہ سے بحری راستہ سے روانہ ہوئے۔ اس زمانہ میں مدینہ کی بندرگاہ “جار” تھی، مگر ہوا کا رخ بدل جانے سے یہ لوگ حبشہ پہنچ گئے۔ وہاں کے مسلمان مہاجرین نے ان کا استقبال کیا اور غزوۂ خیبر کے موقع پر ۷ ہجری میں ان کو ساتھ لے کر مدینہ پہنچے۔ ان حضرات کو “اہل السفینہ” کا لقب ملا۔

طبقات ابن سعد میں ہے کہ یہ لوگ مرد و عورت سمیت پچاس آدمی تھے اور یمن سے سوار ہو کر جدہ اترے:

“سمندری راہ سے کشتیوں میں چلے اور جدہ میں اترے۔”

اسی طرح تخم اور جذام کے تمیم آدمیوں کے ہمراہ حضرت تمیم داریؓ بحر روم کے سفر پر روانہ ہوئے مگر بادِ مخالف کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار ہو کر ایک جزیرہ میں پہنچ گئے۔

اسلامی تاریخ میں صحابۂ کرام کے بحری اسفار کے اور بھی تذکرے موجود ہیں۔ نیز قرآنِ حکیم نے جگہ جگہ سمندروں میں جہاز رانی کے پُرہیبت مناظر بیان کر کے عربوں کو مشرکانہ عقائد پر جھنجھوڑا ہے اور دعوتِ توحید دی ہے۔ عہدِ رسالت کے اشعار میں بھی بحری اسفار اور جہاز رانی کا ذکر موجود ہے۔

ان شواہد و دلائل کے بعد ہندوستان میں صحابہ کرام کا آنا اس لیے مستند قرار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ بحری سفر نہیں کرتے تھے یا وہ جزیرۂ عرب کے ریگستانوں اور پہاڑوں کی حدود سے باہر نہیں نکلے تھے۔ اس موضوع پر تفصیلی معلومات کے لیے علامہ سید سلیمان ندوی کی کتاب عربوں کی جہاز رانی کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

قاضی اطہر مبارکپوری کی یہ تحقیق نہ صرف عہدِ رسالت میں بحری اسفار کی حقیقتوں کو سامنے لاتی ہے بلکہ عرب و ہند کے قدیم روابط کی بھی وضاحت کرتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بھی سمندری راستے محض تجارت کے لیے نہیں بلکہ دعوت، ہجرت اور تہذیبی پیغام رسانی کے لیے بڑے اہم وسیلے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب آج بھی علمی دنیا میں ایک مستند ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے اور آوازِاردو کی پیشکش نے اسے ایک نئی نسل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

Leave a Comment