Ramadan of Muslim Scholars: Lost Spiritual Glory of Saharanpur

Ramadan of Muslim scholars represents not just a time of fasting, but a period of intentional spiritual discipline where knowledge, humility, and devotion converged—most notably in Saharanpur, India. This unique blending once created an exceptional spiritual glory among scholars. Yet, over time, this essence faded, marking the loss of a distinct tradition of inner transformation during Ramadan.

The Sacred Discipline of Ramadan in Saharanpur

In the early 20th century, Ramadan of Muslim scholars in Saharanpur was unlike anywhere else. The renowned scholar Shaykh al-Hadith Maulana Muhammad Zakariya Kandhlawi (1898–1982) — a name revered in Islamic scholarship — described in his autobiography how the entire city’s environment changed with the arrival of Ramadan.

It became a living image of spirituality: mosques illuminated with Qur’anic recitation, long rows of worshippers at Taraweeh, and the fragrance of devotion filling every courtyard. For the scholars, this was not a ritualistic month but a laboratory of the soul — a time to cleanse the heart, refine the will, and strengthen the bond with Allah.

A Scholar’s Ramadan: Simplicity, Solitude, and Service

According to Maulana Zakariya Kandhlawi’s Aap Beeti (autobiography), his Ramadan routine was rooted in humility and order.

He would divide his time between teaching, writing, and personal worship. The early mornings were reserved for Qur’an recitation, afternoons for reflection and study, and the nights for long sessions of Taraweeh and Tahajjud.

He emphasized that the true essence of Ramadan of Muslim scholars was self-control and silence — avoiding idle talk and unnecessary gatherings. Even when hundreds of disciples and guests arrived for I’tikaf (spiritual retreat), he reminded them that real success lay in feeling unworthy before Allah, not in showing piety to others.

From Saharanpur to the Haramain: A Spiritual Journey

As Maulana Zakariya’s influence grew, so did the number of visitors spending Ramadan in his presence. What began with a dozen guests soon became gatherings of hundreds and even thousands. The mosque of Dar al-Talabah Jadeed in Saharanpur had to be expanded to two floors to accommodate them all — yet the Shaykh longed for solitude.

In later years, he spent many Ramadans in Makkah and Madinah, dividing his stay between the two holy cities. The first half of Ramadan in Makkah, he said, was to gain the reward of “Umrah in Ramadan equals Hajj with me”, and the latter half in Madinah for I’tikaf near the Prophet’s Mosque. Such discipline, devotion, and foresight reflected the true Ramadan of Muslim scholars, far beyond the limits of geography.

The Lost Spiritual Glory

What made that era unique was not luxury or ease, but spiritual effort. The scholars of Saharanpur lived with minimal comfort yet infinite peace. They transformed Ramadan into a month of purification — for the soul, the heart, and the intellect.

In our current era, overwhelmed by distractions, the loss of this spiritual glory reminds us of what set the scholars’ Ramadan apart: the deliberate pursuit of inner change and detachment from ego. Reclaiming that essence, as exemplified by Saharanpur’s scholars, is essential for true renewal.

Lessons for Today’s Generation

Maulana Zakariya Kandhlawi’s writings serve as a guide for recapturing the conscious, disciplined approach to Ramadan. His habits illustrate how sincere devotion can revive the profound spiritual purpose that once defined the month for Muslim scholars.

If we, too, turn our homes and hearts into small Saharanpurs — places of knowledge, humility, and remembrance — then perhaps we can rediscover that lost spiritual glory once again.

Conclusion

The Ramadan of Muslim scholars in Saharanpur stands as a timeless reminder that true greatness lies not in fame or wealth but in devotion and discipline. The serenity of those days, described in Maulana Zakariya’s memoirs, continues to call us back — away from distraction, toward the light of faith.

If you’re interested in reading this book, click the link below for a free download.

https://drive.google.com/file/d/1ak7m7cljAzwCUyh-AkKr8dgeKcMG76Dq/view?usp=sharing

If you’d like to listen to this book in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.

You can also watch the same video on these social media platforms.

Let this Ramadan be more than tradition. Let it be a transformation.

In remembering the scholars of Saharanpur, we remember what it truly means to live for Allah.

حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ (۱۸۹۸ء–۱۹۸۲ء) برصغیر کے نامور محدث، مفسر، مصنف اور روحانی بزرگ تھے جنہوں نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک حدیث و علومِ دینیہ کی خدمت کی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے اور اعلیٰ دینی تعلیم دارالعلوم مظاہر العلوم سہارنپور میں حاصل کی، جہاں حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ جیسے جلیل القدر اساتذہ سے استفادہ کیا۔ آپ کئی دہائیوں تک مظاہر العلوم میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے اور ہزاروں طلبہ نے آپ سے فیض حاصل کیا۔ آپ کی تصانیف کی تعداد سو سے زائد ہے جن میں “فضائل اعمال” سب سے مشہور ہے، جو تحریکِ تبلیغ کا بنیادی نصاب بن گئی اور دنیا کی درجنوں زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے۔ اسی طرح “اوجز المسالک شرح موطا امام مالک”، “کنز المتواری شرح بخاری” اور دیگر کتب نے بھی علمی دنیا میں نمایاں مقام پایا۔ آپ کی زندگی تقویٰ، انکساری، اخلاص اور عشقِ نبویؐ سے بھرپور تھی۔ آخری عمر میں مدینہ منورہ منتقل ہوگئے اور وہیں ۲۴ مئی ۱۹۸۲ء کو وصال فرمایا، آپ کو جنت البقیع میں سپردِ خاک کیا گیا

 

حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کی مشہور خودنوشت ’’آپ بیتی‘‘ سات جلدوں پر مشتمل ہے، جس میں آپ نے اپنی زندگی کے مختلف مراحل کا احوال نہایت سچائی اور انکسار کے ساتھ بیان کیا۔ اس کتاب میں آپ نے اپنی ابتدائی بچپن، دینی تعلیم، اساتذہ و علمائے کرام سے ملاقاتیں، روحانی تجربات، سفرِ حجاز، تقسیم ہند کے اثرات اور اپنے علمی و تبلیغی کارناموں کی داستان پیش کی ہے۔ آپ بیتی نہ صرف ایک سوانحِ عمری ہے بلکہ ایک تربیتی دستاویز بھی ہے، جس کے مطالعے سے طلبہ، اہلِ علم اور عام قاری کو آپ کی سیرت، عزائم اور اخلاقی صفات کا عمیق ادراک ہوتا ہے، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک عالمِ دین اپنی زندگی کو سچائی، جد و جہد اور اللہ کی رضا کے لیے کیسے بسر کرتا ہے۔

 

اس ناکارہ کے پاس احباب کے رمضان گزارنے کا سلسلہ تقریباً چالیس سال سے چلا آرہا ہے۔ شروع میں تو دس بارہ آدمی ہوتے تھے، اور اس ناکارہ کا معمول یہ تھا کہ رمضان کے چند روز ان مہمانوں کو اپنے پاس رکھ کر رائے پور حضرت اقدس رائے پوری نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں رمضان گزارنے کے واسطے بھیج دیتا اور ایک پرچہ بھی لکھ دیتا کہ ان کو حضرت کی خدمت میں رمضان گزارنے کے واسطے بھیج رہا ہوں۔ اس کی وجہ سے حضرت قدس سرہ کی توجہاتِ عالیہ میرے مہمانوں پر خصوصی رہتیں۔ اس میں مولوی عبداللہ کرسوی کے رفقاء خاص طور سے بہت قدیم آنے والوں میں تھے اور کئی رمضان انہوں نے رائے پور ہی میں گزارے۔ بعض لوگوں کی حالت بہت اچھی ہوئی اور حضرت قدس سرہ کی توجہات سے اور بھی زیادہ پرواز کرنے لگے، مگر وہاں کے بعض مقیمین حضرات نے میرے بعض مہمانوں سے یہ کہہ دیا کہ تمہیں اب تک شیخ نے اجازت کیوں نہیں دی؟ یہ چیز ان بیچاروں کے لیے سم قاتل بن گئی کہ وہ اپنے کو کچھ سمجھنے لگے۔ اس فن کا مسلم اصول یہ ہے کہ جب تک آدمی اپنے کو ناکارہ و نااہل سمجھتا رہے تو کامیاب ہے، اور جب اپنے کو اہل سمجھنے لگے تو ناکام ہے۔ مجھے اپنے اکابر کے خدام اور دوستوں میں بہت سوں پر اس کا تجربہ ہوا۔

اس نابکار کو میرے حضرت قدس سرہ نے ذیقعدہ ۱۳۴۵ھ میں مدینہ منورہ میں اجازت دی تھی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ میں نے بلا کسی توجہ اور مبالغہ کے حضرت اقدس رائے پوری نور اللہ مرقدہ کے پاؤں پکڑ کر عرض کیا تھا کہ ہندوستان میں اس کا ذکر مت کیجیے گا، مگر حضرت نے فرما دیا کہ میں تو ضرور کروں گا اور وہیں سے لکھنا شروع کردیا۔

یہاں آنے کے بعد ایک عرصہ تک بیعت کی ہمت نہیں پڑی۔ شاید آپ بیتی میں کہیں اس کا ذکر آگیا ہے کہ چچا جان نور اللہ مرقدہ کی ڈانٹ بلکہ شدید عتاب پر بیعت شروع کی۔ اس کے بعد حضرت شیخ الاسلام اور حضرت رائے پوری نور اللہ مرقدہما کی خدمت میں بار بار عرض کیا کہ میری نااہلیت کے پیش نظر آپ حضرات میں سے کوئی بیعت سے منع کر دے تو میرے لیے گنجائش نکل آئے، مگر ہر مرتبہ ان حضرات نے الٹا مجھے ہی ڈانٹ دیا۔ اس وقت مجھے حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہ کا ایک فقرہ یاد آگیا کہ میری درخواست پر حضرت نے نہایت غصے میں فرمایا تھا: اپنے کو اہل سمجھ کر کون بیعت کرتا ہے؟ جو اپنے کو اہل سمجھے وہ نااہل ہے، کامیاب وہی ہے جو اپنے کو نااہل سمجھتا رہے۔

مضمون تو یہ بہت اہم ہے اور لکھنے کے قابل بھی، مگر غیر متعلقہ ہے۔ اس وقت تو صرف اتنی ہی تنبیہ کافی ہے کہ اس راہ میں جو شخص بھی اپنے کو کسی قابل سمجھنے لگتا ہے وہ بجائے ترقی کے تنزل کی طرف چلنے لگتا ہے۔

بہرحال لکھ تو یہ رہا تھا کہ میرے بعض دوستوں کی ترقی اس سے رک گئی۔ اس کے علاوہ ہر سال مجمع بھی بڑھنا شروع ہوگیا۔ اس لیے رائے پور بھیجنے کا مستقل اہتمام چھوٹ گیا، کیونکہ حضرت قدس سرہ کے بھی رمضان پاکستان وغیرہ میں ہونے لگے۔ ۱۳۸۲ھ سے حضرت رائے پوری قدس سرہ کے وصال کی وجہ سے مجمع میں اضافہ شروع ہوگیا۔ ۱۳۸۴ھ میں تو مولانا یوسف صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی معیت کا اعتکاف چھوڑ کر پانچ نفر بہارپور پہنچے مگر یہاں جگہ نہیں تھی، ان بیچاروں کا اعتکاف بھی رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ اجر عطا فرمائے، زکریا نے اس سال پورے ماہ کا اعتکاف مدرسہ قدیم کی مسجد میں کیا تھا، اس وجہ سے جگہ کی اور بھی تنگی ہوگئی۔ اس لیے ۱۳۸۵ھ سے دارالطلبہ جدید کی مسجد میں رمضان گزارنا شروع کیا۔ وہاں بھی ہر سال مجمع بڑھتا ہی چلا گیا۔ چنانچہ اس سال ۴۰ نفر مختلف تھے اور اخیر میں ۲۰۰ تک مقدار پہنچ گئی۔

۱۳۸۶ھ میں معتمرین ۲۰۰ تک شروع ہی سے ہوگئے۔ ۱۳۸۷ھ میں تقریباً ۵۰ نفر کو یہ کہہ کر انکار کرنا پڑا کہ مسجد میں جگہ نہیں رہی۔ دارالطلبہ جدید میں خیمے لگانے پڑے، طلبہ کے حجرے خالی تھے، ان میں مہمانوں کو ٹھہرانا شروع کیا۔

۱۳۸۹ھ میں تو اس ناکارہ کا رمضان حرمین شریفین میں گزرا۔ حرمین شریفین کے رمضان کا معمول یہ ہے کہ نصف اول مکہ مکرمہ میں تاکہ ’’عمرۃ فی رمضان تعدل حجۃ معی‘‘ کی فضیلت حاصل ہو، اور نصف آخر مدینہ منورہ میں تاکہ مسجد نبوی میں اعتکاف نصیب ہو جائے۔

چونکہ ۱۳۹۳ھ کا رمضان بھی اس ناکارہ کا حرمین شریفین میں گزرا تھا اس لیے احباب کا اندازہ تھا کہ ۱۳۹۴ھ میں مجمع بہت ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ۱۳۹۳ھ ہی سے احباب نے زکریا پر یہ زور دینا شروع کردیا تھا کہ دارالطلبہ جدید کی مسجد دو منزلی ہو جائے تاکہ معتکفین کو سہولت ہو۔ مگر زکریا عذر کر دیتا تھا کہ میری زندگی کتنے دن کی ہے۔

چونکہ ۱۳۹۳ھ میں اہل مدرسہ نے بھی زکریا پر زور دینا شروع کیا کہ مدرسہ کی ضرورت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ دار جدید کی مسجد دو منزلی ہو جائے، کیونکہ طلبہ ہر سال بڑھتے جاتے ہیں۔ اس وقت چونکہ احباب کا خود اصرار ہو رہا تھا اس لیے مسجد کے بننے میں سہولت رہی۔ زکریا نے بھی خیال کیا کہ واقعی مدرسہ کی ضرورت تو بڑھے گی ہی، اس لیے زکریا نے منظوری دے دی اور احباب نے (اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے) چند ماہ میں دارالطلبہ جدید کی مسجد کو دو منزلی بنوا دیا۔ مگر چونکہ گزشتہ سال زکریا کا رمضان سہارنپور میں نہیں ہوا تھا، اس لیے مجمع اندازے سے زیادہ بڑھ گیا اور دو منزلی مسجد بھی معتکفین کے لیے کافی نہ رہی۔ جتنے مسجد کے دونوں حصوں میں آسکے، ان کا اعتکاف ہوا، باقی مہمانوں کے لیے دارالطلبہ جدید کے حجرے خالی کرائے گئے۔ طلبہ اپنے گھروں کو جانے والے تھے، ان کا سامان ایک حجرے میں منتقل کیا گیا اور جو رمضان سہارنپور گزارنے والے تھے ان کو ایک ماہ کے لیے دارالطلبہ قدیم میں منتقل کیا گیا۔ شروع رمضان میں آٹھ نو سو کا اندازہ تھا اور اخیر رمضان میں عزیز مولوی نصیرالدین نے کہا کہ آج ۱۸ سو مہمان ہیں۔ اجتماع میں جو لوگ آئے تھے ان میں سے بھی ۳۰، ۴۰ کے قریب رمضان گزارنے کے لیے رک گئے تھے۔

اس ناکارہ کا اصل مذاق پہلے بھی گزر چکا ہے کہ انتہائی یکسوئی کا ہے۔ جس کو حکیم طبیب مرحوم کے الفاظ میں نقل کرچکا ہوں کہ بھائی جی! رمضان سب کے یہاں آوے مگر بخار کی طرح سے نہیں۔ مگر اپنے ذوق اور طبیعت کے خلاف موجودہ دور کے اکابر اور احباب کے اصرار پر یہ ہجوم گوارا کرنا پڑتا ہے۔ ہمیشہ سے کوشش یہی رہی ہے کہ اگر خدا نخواستہ کچھ اپنے کو معمولی نقصان بھی پہنچ جائے اور دوسرے کو اس سے زیادہ نفع پہنچ جائے تو اسے برداشت کرلینا چاہیے۔

اس روز افزوں ہجوم کی کمی کے سلسلے میں تو کئی سال سے اپنے مخلصین مولانا منور حسین صاحب، مفتی محمود حسن صاحب، بھائی جمیل صاحب حیدرآبادی (جو پورا رمضان وہاں گزارتے ہیں یا رمضان میں آمد کا خاص اہتمام کرتے ہیں)، مولانا یوسف مرحوم، مولانا انعام الحسن صاحب، مولانا علی میاں، مولانا منظور احمد صاحب نعمانی وغیرہ سے ہر سال بار بار مشورہ ہوتا رہتا ہے۔ اگر یہ حضرات اس مجمع کی زیادتی کو لوگوں کے لیے مفید بناتے ہیں تو اس میں بہت سے لوگ غیر متعلق بھی آجاتے ہیں۔ اس ناکارہ کو کام کرنے والوں کی آمد پر تو زیادہ گرانی نہیں ہوتی، چاہے اس سے بھی بڑھ جائیں، بشرطیکہ وہ رمضان کو نہایت یکسوئی کے ساتھ اپنے کام میں مشغول رہیں۔

لیکن ایسے لوگ جو محض تفریحاً رمضان گزارنے آتے ہیں یا مدارس کے وہ طلبہ جن کے کھانے رمضان میں بند ہو جائیں اور وہ دوسرے سال کسی دوسرے مدرسہ میں منتقل ہونا چاہیں اور تعطیل کے یہ ایام یہاں گزار دینا چاہتے ہوں، ایسوں کی آمد گراں گزرتی ہے۔ اس ناکارہ کے یہاں ماہِ مبارک میں کھانے پر کوئی پابندی نہیں، لیکن بلا مجبوری کسی سے بات کرنا بدترین جرم ہے۔ اس لیے جب میرے کان میں کسی کے متعلق یہ پڑتا ہے کہ وہ باتیں کرتا ہے تو ایک دو دفعہ کی تنبیہ کے بعد اس سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ کہیں اور رمضان گزارے۔

بعض احباب نے یہ مشورہ دیا کہ مدارس کے مدرسین کے علاوہ کسی اور کو آنے کی اجازت نہ دی جائے۔ مدرسین کو تو یہ مجبوری ہے کہ سال بھر اپنے مدارس کی وجہ سے آنے کا وقت نہیں ملتا، مگر دوسرے لوگ تو دوسرے وقت بھی آسکتے ہیں۔ لیکن اس ناکارہ نے اس کو بھی قبول نہیں کیا، کیونکہ مجھے بھی دوستوں سے یکسوئی سے ملنے کا وقت رمضان ہی میں ملتا ہے۔ اور بھی بہت سی تجویزیں احباب ہر سال پیش کرتے رہتے ہیں مگر اس ہجوم کی تقلیل کی کوئی ایسی صورت اب تک قابو میں نہیں آئی۔

بعض مخلصین کا یہ اصرار ہے کہ بعض اکابر کی طرح رمضان میں کھانے کا انتظام اپنے ذمہ نہ رکھا جائے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں مجمع کی قلت بہت ہو جائے گی، مگر اس میں ان لوگوں کا بہت حرج ہے جو واقعی کام کرنے کی نیت سے آتے ہیں، کیونکہ ان کو سحر و افطار کے انتظام میں وقت بہت ضائع کرنا پڑے گا۔ ماہِ مبارک بہت ہی قیمتی زمانہ ہے، کاش میرے دوست اس کی اہمیت کو پہچانیں اور اس کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ اس کی برکات سال بھر تک رہتی ہیں۔

Leave a Comment