Too Much Respect: When Honor Becomes a heavy Burden.

Too Much Respect may sound like a blessing — but as Mustansar Hussain Tarar humorously reminds us, even respect can turn into an unbearable weight when it exceeds its natural limit. In his witty essay “Barah-e-Karam Meri Izzat Na Keejiye” (Please, Do Not Honour Me So Much) from his collection Be-Izzati Kharaab,” Tarar Sahib explores how Too Much Respect becomes not admiration, but agony. What begins as honour soon transforms into inconvenience, and the fragrance of praise starts to suffocate.

The Comedy of Constant Appreciation

Mr.Tarar observes that Too Much Respect is like sugar — sweet in small amounts but harmful in excess. He humorously complains that wherever he goes, people invite him as a “Chief Guest,” shower him with endless introductions, and present him with bouquets that he can neither keep nor use. “I’ve developed an allergy,” he jokes, “not from flowers, but from respect itself.”

In one incident, he received a call from a college principal inviting him as a guest for a scarf-dyeing competition. When he politely refuses, the organizer insists, almost emotionally blackmailing him, because how could he possibly deny an opportunity to be “honored”? Tarar’s humor lies in this exaggerated politeness — a polite pressure that feels anything but polite.

When Honor Turns into a Burden

Tarar Sahib’s reflections carry a deeper truth. He says that Too Much Respect eventually loses its meaning. Being honored repeatedly at every function becomes mechanical — the same flowers, the same speeches, the same polite applause. Even his wife, seeing the heap of bouquets in his car, sarcastically says that those flowers would be better used as food for their goat!

Behind the laughter lies an important message: excessive honor is just another form of emptiness. When every gathering turns into a ceremony of flattery, genuine appreciation disappears.

The Social Satire in Too Much Respect

Mr. Tarar uses Too Much Respect as a mirror to mock our social habits. He points out that people love to honor artists and writers — but only symbolically. They bring them on stage, present flowers, and take pictures, but rarely offer the true respect of understanding or supporting their work.

He even narrates a conversation with renowned writer Ashfaq Ahmed, who jokingly suggested charging fees for these constant honours: ten thousand rupees for presiding, five thousand for ribbon-cutting, and one thousand for each photograph. This playful idea exposes a serious flaw — that society replaces real value with shallow gestures of admiration.

Humor, Truth, and the Human Condition

Through his essay, Tarar Sahib reveals that Too Much Respect can be as uncomfortable as disrespect. He argues that every virtue — whether it’s wealth, health, or honor — loses beauty when it crosses the boundary of moderation. What should elevate the spirit starts to exhaust it.

The brilliance of Tarar’s satire lies in his tone: he never preaches, only smiles and invites readers to smile with him — and in that laughter, we recognize ourselves.

Conclusion: Balance Is the Real Beauty

In the end, Mustansar Hussain Tarar’s essay from Be-Izzati Kharaab is not just a funny complaint — it’s a reflection on human psychology and social behavior. Too Much Respect reminds us that moderation is the essence of beauty and meaning. Whether it’s admiration, love, or success, once it crosses its limit, it becomes a burden instead of a blessing.

If you’re interested in reading this book, click the link below for a free download.

https://drive.google.com/file/d/1acw8UMpa-kHmYi-tOzenvvugiD05FlJD/view?usp=sharing

If you’d like to listen to this book in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.

You can also watch the same video on these social media platforms.

So next time we rush to “honour” someone, let’s remember Tarar Sahib’s subtle wisdom —
Every gesture of respect should have heart, not just habit.

دنیا میں کوئی بھی چیز جب اپنی حد سے بڑھ جائے تو اچھی سے اچھی نعمت بھی بوجھ بن جاتی ہے اور اکثر نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ خوشی ہو یا دولت، صحت ہو یا عزت—اعتدال سے زیادہ ہو جائے تو انسان کو بےچینی میں مبتلا کر دیتی ہے۔ عزت افزائی عام حالات میں باعثِ مسرت سمجھی جاتی ہے، لیکن جب یہ ہر وقت اور ہر جگہ ہونے لگے تو انسان اس سے گھبرا اٹھتا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ نے اپنی کتاب بے عزتی خراب کے ایک انشائیے “براہِ کرم میری عزت نہ کیجیے” میں اسی کیفیت کو نہایت شگفتہ پیرائے میں بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اضافی عزت بھی کبھی کبھی نقصان دہ اور اذیت ناک ہو جاتی ہے۔

مستنصر حسین تارڑ پاکستان کے ایک ممتاز ادیب، سفرنامہ نگار، ناول نگار اور کالم نویس ہیں جنہوں نے اردو ادب میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ وہ یکم مارچ 1939 کو لاہور میں پیدا ہوئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے سفرنامہ نگاری کو ایک نیا انداز دیا اور “نکلے تری تلاش میں”، “اندلس میں اجنبی”، “خانۂ بدوش” اور “کے ٹو کہانی” جیسی کتابیں لکھیں جو قارئین میں بے حد مقبول ہوئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ناول، افسانے، ڈرامے اور ٹیلی ویژن و ریڈیو پروگراموں کی میزبانی بھی کی۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغۂ حسنِ کارکردگی اور ناول “راکھ” پر وزیرِاعظم ادبی ایوارڈ دیا گیا۔

بے عزتی خراب جناب مستنصر حسین تارڑ کی تحریر کردہ 59 انشائیوں کا مجموعہ ہے، جس میں انہوں نے اپنے مخصوص دلنشین اور شگفتہ اسلوب میں معاشرتی رویوں، روزمرہ کے تجربات اور زندگی کی تلخی و لطافت کو طنز و مزاح کے پیرایے میں بیان کیا ہے۔ یہ انشائیے محض ہلکی پھلکی تحریریں نہیں بلکہ ہمارے سماجی ماحول اور انسانی نفسیات پر گہرا تبصرہ ہیں، جو قاری کو بیک وقت محظوظ بھی کرتے ہیں اور سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔

اس کتاب کا درج ذیل مضمون آوازِاردو نے اپنی ایک ویڈیو میں پڑھ کر سنایا ہے، جس میں مصنف اپنی عزت افزائی کا شکوہ  کچھ اس طرح کرتے ہیں:

“میں اپنی عزت افزائی سے تنگ آ گیا ہوں۔

جہاں جاتا ہوں وہاں خوب عزت ہوتی ہے اور ہوتی ہی چلی جاتی ہے، اور عزت کے سوا  اور کچھ نہیں ہوتا۔

یہ نہیں کہ میں چاہتا ہوں کہ جہاں جاؤں وہاں میری بے عزتی ہو، یا جس محفل میں جاؤں وہاں سے نکال دیا جاؤں، نہیں! یہ میں نہیں چاہتا۔ ویسے کبھی کبھار بے عزتی بھی ہو جاتی ہے لیکن میں کسی کو بتاتا نہیں کہ کیوں ہوئی۔

لیکن عزت افزائی کی بھی تو کوئی حد ہونی چاہیے۔

یہ بہار کے دن ہیں لیکن میرے لیے عذاب کے دن ہیں۔ جی نہیں، مجھے اللہ کا شکر ہے کہ پھولوں سے الرجی نہیں ہے، ورنہ اپنے دوست خاور زمان کی طرح پورا موسم بہار چھینکیں مارتے گزارنا پڑتا۔ بلکہ مجھے تو عزت افزائی سے الرجی ہے۔ اور یہ وہ دن ہیں جب تعلیمی اداروں کے سالانہ فنکشن منعقد ہوتے ہیں، تقریری مقابلے ہوتے ہیں، ادبی اور غیر ادبی انجمنوں کے کارکن متحرک ہو جاتے ہیں، اور شہر بھر کے ادیب، شاعر اور ٹیلی ویژن پر نمودار ہونے والے لوگ ان کارکنوں سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں کہ وہ ان کی عزت افزائی کرنے پر تلے ہوتے ہیں اور انہیں مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا طریقہ واردات نہایت سائنسی ہوتا ہے۔ عام طور پر اس واردات کا آغاز ٹیلی فون سے ہوتا ہے۔

’’جی سلام علیکم، آپ بول رہے ہیں؟‘‘ ایک نہایت مترنم آواز سنائی دیتی ہے۔

’’جی، میں بول رہا ہوں۔ تو بولیے۔‘‘

’’کیا بولیے؟‘‘ میں بھنّا کر کہتا ہوں۔

’’کچھ بھی بولیے، ہم تو آپ کو بولتے ہوئے سننا چاہتے ہیں۔‘‘

’’آپ کچھ پوچھیں گی تو میں بولوں گا ناں۔‘‘

’’آپ تو وہاں ٹیلی ویژن پر خواہ مخواہ بولے چلے جاتے ہیں، اب ہم نے فون کیا ہے تو نخرے دکھا رہے ہیں۔‘‘

’’دیکھیے محترمہ، براہِ کرم بتا دیجیے کہ آپ چاہتی کیا ہیں؟‘‘

’’سوری سر،‘‘ وہ یکدم آفیشل ہو جاتی ہیں، ’’میں فلاں کالج کی پرنسپل صاحبہ کی جانب سے آپ کو فون کر رہی ہوں۔ ہمارے کالج میں دوپٹے رنگنے کا مقابلہ ہو رہا ہے اور ہم آپ کو چیف گیسٹ کے طور پر مدعو کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

’’لیکن دوپٹے رنگنے کے مقابلے میں جا کر میں کیا کروں گا؟‘‘

’’آپ ہماری بچیوں کی حوصلہ افزائی کریں گے اور انعام تقسیم کریں گے۔‘‘

’’سوری جی، میں نہیں آ سکتا۔‘‘

’’واہ! آپ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں؟ ایک تو ہم آپ کی عزت افزائی کرنا چاہتے ہیں اور آپ کروانا نہیں چاہ رہے۔ اور ہاں، فنکشن کے اختتام پر آپ کو گلدستہ پیش کیا جائے گا اور پرنسپل صاحبہ کے دفتر میں چائے ہوگی، جس میں فروٹ چاٹ اور پکوڑے ہوں گے۔ تو آپ وقت پر پہنچ جائیے گا۔‘‘

تو جناب! میں اس قسم کی عزت افزائی سے تنگ آ گیا ہوں۔

ایک تو ان دنوں یہ بُوکے یا گلدستہ پیش کرنے کا رواج ہو گیا ہے۔ چونکہ ایسے گلدستوں کے پھول کاٹ کر ان پر خاص کیمیکل چھڑک دیا جاتا ہے تاکہ چمکیلے اور تر و تازہ نظر آئیں، لہٰذا انہیں آپ گھر واپس لا کر گلدان میں سجا بھی نہیں سکتے۔ ایسے بُوکے سے آپ زیادہ سے زیادہ جھاڑ پونچھ کا کام لے سکتے ہیں یا کسی کو زد و کوب کر سکتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے میں اسی قسم کی عزت افزائی کروا کے گھر واپس آیا تو میری کار کی پچھلی نشست پر تین بُوکے پڑے ہوئے تھے۔ یاد رہے یہ بقرعید سے کچھ روز پہلے کا واقعہ ہے۔ میری بیگم کار کی آواز سن کر پورچ میں آئیں اور کہنے لگیں: ’’تو کیسا رہا تمہارا فنکشن؟‘‘

’’بڑی عزت افزائی ہوئی بیگم! ڈیڑھ سو بچوں میں انعام اور سرٹیفکیٹ تقسیم کیے۔ اسٹیج پر اتنی دیر کھڑا رہا کہ ٹانگیں پتھر کی ہو چکی ہیں اور دن میں تارے نظر آ رہے ہیں۔ لیکن عزت افزائی بہت ہوئی۔‘‘

اشارہ کیا: ’’یہ عزت افزائی ہوئی ہے؟‘‘ اس نے پچھلی نشست پر پڑے گلدستوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

’’بالکل عام قسم کی شخصیات کو تو صرف ایک بُوکے پیش کیا جاتا ہے، مگر میری اتنی عزت افزائی ہوئی کہ تین بُوکے پیش کیے گئے۔‘‘

بیگم قطعی طور پر متاثر نہ ہوئیں اور کہنے لگیں: ’’ان سے بہتر تھا کہ تمہیں کچھ چارا پیش کر دیتے، کم از کم اس بکرے کو کھلا دیتے جو صبح سے مَیں مَیں کر رہا ہے۔ انہیں تو بکرا بھی منہ نہ لگائے گا۔ جاؤ، اس غریب کے لیے بازار سے چارا خرید کر لاؤ۔‘‘

پرانی کہاوت ہے کہ انگریزوں نے طعنہ دیا: ’’ہم جب میدانِ جنگ میں اترتے ہیں تو عزت کے لیے لڑتے ہیں۔‘‘ اور فرانسیسی دولت کے لیے لڑتے ہیں۔ اس پر فرانسیسی حضرات نے جواب دیا: ’’بالکل درست فرمایا، کیونکہ جس قوم کے پاس جس چیز کی کمی ہوتی ہے وہ اسی کے لیے لڑتی ہے۔‘‘

اب میرا بھی یہی حال ہے کہ عزت تو دھڑا دھڑ مل رہی ہے، لیکن دولت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ بھلا ہو شہر کے دو تین شاعروں اور ایک دو ریٹائرڈ بیوروکریٹس کا، کہ دوڑتے ہوئے ایسی محفلوں میں پہنچ جاتے ہیں اور خوب عزت کرواتے ہیں۔

پچھلے برس ایک پرائیویٹ اسکول کی جانب سے دعوت موصول ہوئی کہ بچوں کا فینسی ڈریس مقابلہ ہے، آپ چیف گیسٹ کے طور پر تشریف لائیں۔ میں واقعی کہیں اور مصروف تھا، اس لیے معذرت کر دی۔ اس پر پرنسپل صاحب نے برا مانا اور کہنے لگے: ’’طارڑ صاحب! ادیب اور دانشور وغیرہ ہمیشہ رونا روتے رہتے ہیں کہ قوم ہماری قدر نہیں کرتی۔ ہم آپ کی جگہ کسی مخیر شخصیت کو بلا سکتے تھے جو ہمارے اسکول کو ڈونیشن بھی دے جاتے۔ آپ نے کیا دینا تھا؟‘‘ اور فون بند کر دیا۔

اس کے اگلے روز ان کا پھر فون آیا اور کہنے لگے: ’’میں صرف یہ بتانے کے لیے فون کر رہا ہوں کہ آپ تو نخرے کر رہے تھے اور عزت افزائی نہیں کروانا چاہتے تھے۔ تو ہم نے فلاں ریٹائرڈ جج صاحب سے درخواست کی۔ نہ صرف وہ تشریف لا رہے ہیں بلکہ اپنے ساتھ پریس فوٹوگرافر بھی لا رہے ہیں۔ سمجھے آپ؟‘‘

کچھ لوگ تو اس قسم کی دعوت بڑے ادب اور احترام سے دیتے ہیں، گھر آ کر درخواست کرتے ہیں اور یہ پیشکش بھی کرتے ہیں کہ ’’سر، ہم گاڑی بھیج دیں گے تاکہ آپ وقت پر پہنچ جائیں۔‘‘ لیکن کچھ حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں، اور یہ حضرات جمہوری دور میں زیادہ پائے جاتے ہیں، جو باقاعدہ دھونس جماتے ہیں اور تقریباً دھمکی آمیز انداز میں دعوت دیتے ہیں: ’’جی آپ بول رہے ہیں؟ میں فلاں اسٹوڈنٹ یونین کے سیکرٹری جناب فلاں کی جانب سے بات کر رہا ہوں۔ ہم تعلیم کے فروغ کے لیے کتابوں کا میلہ منعقد کر رہے ہیں جس میں آپ کو شمولیت کی دعوت ہے۔ وقت پر پہنچ جائیے گا۔ یونین کا نمائندہ گیٹ پر ہوگا۔ آپ اگر نہ آئے تو پھر یہ دیکھ لیجیے گا کہ ہمارے کارکن بڑے جوشیلے ہیں۔‘‘

ریڈیو پاکستان کے ایوارڈز کی ایک جیوری میں اشفاق احمد صاحب کے ہمراہ میں بھی شامل تھا۔ جب ہم نے اپنا فیصلہ قلمبند کر دیا تو اشفاق صاحب کہنے لگے: ’’یار طارڑ! تم سے ذرا مشورہ کرنا تھا۔‘‘

میں نے عرض کیا: ’’خان صاحب! مشوروں کے تو آپ ماسٹر ہیں، بہرحال فرمائیے۔‘‘

کہنے لگے: ’’میں اور تمہاری بانو آپا کل ایک ایکشن پلان بنا رہے تھے۔ کیونکہ ہم محفلوں اور یونیورسٹی کالجوں میں صدارتیں کرتے کرتے تنگ آ چکے ہیں۔‘‘

خان صاحب نہایت سنجیدگی سے داڑھی کھجاتے ہوئے بولے: ’’لوگ موچی سے ایک کیل جوتے میں لگواتے ہیں تو اسے دو چار روپے اجرت دے دیتے ہیں۔ اور ہم لوگ جو اتنے جتن کے بعد آخرکار ادیب اور دانشور بن جاتے ہیں تو ہماری خدمت کی کوئی اجرت نہیں دی جاتی۔ چنانچہ تمہاری بانو آپا نے طے کیا ہے کہ آئندہ فنکشن کی صدارت کے دس ہزار، فیتہ کاٹنے کے پانچ ہزار، تقریر کے پندرہ ہزار اور فی تصویر ایک ہزار روپے۔ کیا خیال ہے؟ ہم تمہیں بھی اس ایکشن پلان میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

اشفاق صاحب کا ایکشن پلان تو نہایت عمدہ ہے، لیکن مجھے ڈر ہے کہ عزت افزائی کے شوقین کچھ دانشور اور ریٹائرڈ افسر اسے سبوتاژ کر دیں گے، بلکہ اُلٹا اتنی ہی رقم دے کر صدارتیں کرتے رہیں گے۔

چنانچہ میں بھی فی الحال صرف عزت افزائی پر ہی گزارہ کروں تو بہتر ہے، اگرچہ گزارہ نہیں ہوتا”۔”

یہ انشائیہ محض مزاحیہ شکوہ نہیں بلکہ معاشرتی رویوں کا ایک بھرپور طنز بھی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ نے نہایت خوبصورتی سے دکھایا کہ کیسے اضافی عزت بھی انسان کے لیے بوجھ بن جاتی ہے اور کبھی کبھی زندگی کو بے لطف کر دیتی ہے۔ بے عزتی خراب کے دیگر مضامین کی طرح یہ بھی قاری کو ہنساتے ہنساتے گہری سوچ میں ڈال دیتا ہے۔ اصل پیغام یہی ہے کہ ہر چیز کی ایک حد ہے، اور جب وہ حد ٹوٹتی ہے تو حسن بگڑ کر خرابی میں بدل جاتا ہے۔

Leave a Comment