The Valley of the Kings in Egypt stands as one of humanity’s greatest archaeological wonders. Tucked deep within the Theban hills near Luxor, this royal necropolis whispers the silent stories of ancient pharaohs. For over three thousand years, the valley has guarded its untold secrets beneath the sands—secrets of power, immortality, and the human desire to conquer death itself.
Even today, millions of travelers brave the desert heat to stand before these sacred tombs, seeking a glimpse of Egypt’s eternal grandeur.
Yaqub Nizami’s Timeless Encounter with Ancient Egypt
Among those who explored the Valley of the Kings in Egypt was Yaqub Nizami, a distinguished Urdu travel writer and translator. Born in 1955 in Kotli, Azad Kashmir, and later educated in Lahore and the UK, Nizami redefined Urdu travel literature with his poetic observation and cultural insight. His celebrated travelogue, “Misr ka Bazaar” (The Market of Egypt), captures Egypt’s history, art, and human spirit with stunning realism.
Through his words, the Valley of the Kings in Egypt transforms from a historical site into a living, breathing symbol of human creativity. He describes crossing the Nile River, journeying through New Qurna village, and arriving at the valley’s sun-scorched entrance where time itself seems to pause.
Hidden Tombs and the Majesty of Pharaohs
In Nizami’s account, the moment one enters the Valley of the Kings in Egypt, an eerie silence replaces the world’s noise. Beneath the surface lie more than seventy tombs carved into red limestone hills. These are not mere graves — they are elaborate palaces for the dead, adorned with hieroglyphic inscriptions, divine sculptures, and vibrant murals depicting the pharaohs’ journey to the afterlife.
Among the most magnificent is the tomb of Ramses II, where murals narrate his military victories and the rituals of the gods who received him. Every carving and color speaks of glory, mortality, and the timeless bond between man and eternity.
From Shelley’s Ozymandias to Egypt’s Eternal Echo
As Yaqub Nizami stood before the colossal ruins of Amenhotep III’s temple, he recalled Percy Bysshe Shelley’s immortal poem Ozymandias:
“Look on my Works, ye Mighty, and despair!”
This poetic reflection bridges the ancient and the modern — reminding us that even the most powerful kings succumb to time. The Valley of the Kings in Egypt embodies that paradox: decay and magnificence, silence and storytelling, life and death intertwined beneath the sands.
Cultural Depth and Literary Beauty
“Misr ka Bazaar” is not just a travelogue; it’s a journey through history, emotion, and imagination. Nizami’s prose captures the scent of the desert wind, the rhythm of the Nile, and the mystic aura of ancient tombs. His Valley of the Kings in Egypt, is both real and metaphorical — a place where civilizations meet and human legacy breathes again.
For readers of Urdu literature, this travelogue serves as a gateway to Egypt’s past and an exemplar of how words can transform ruins into art.
Why the Valley Still Captivates the World
The enduring fascination with the Valley of the Kings in Egypt lies in its contradictions. It is both a graveyard and a gallery, a ruin and a revelation. Every discovery — from the tomb of Tutankhamun to the fragments of forgotten gods — adds another layer to our understanding of history. The valley is not dead; it continues to speak through its stones, colors, and carvings.
Conclusion: Discover the Untold Secrets
The Valley of the Kings in Egypt remains one of the world’s most mysterious and majestic places — a testament to the enduring legacy of even the most ancient civilizations. Through Yaqub Nizami’s travel writing, readers experience not only the grandeur of Egypt but also the soul of humanity reflected in its ruins.
If you’re interested in reading this book, click the link below for a free download.
https://drive.google.com/file/d/137o0Px1xdjz4p8v0Q0gEFVouVe3AEFlL/view?usp=sharing
If you’d like to listen to this book in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.
Contact Us:You can also watch the same video on these social media platforms.
Febspot Facebook RumbleIf history, poetry, and adventure intrigue you, let Egypt’s ancient sands reveal their untold secrets — and lose yourself in the timeless wonder of the Valley of the Kings.
دنیا کے مشہور سات عجائبات میں سے ایک، اہرامِ مصر کو تاریخ میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ یہ عظیم الشان یادگار نہ صرف انسانی تخلیقی صلاحیتوں کی علامت ہے بلکہ تہذیبی ورثے کی ایک زندہ مثال بھی ہے۔ ہزاروں برس گزر جانے کے باوجود آج بھی دنیا بھر سے لاکھوں سیاح اس صحرائی سرزمین کی گرمی، دھول اور مشقت بھری راہوں کے باوجود ان اہرامات کو دیکھنے کھنچے چلے آتے ہیں۔ تاریخ، فنِ تعمیر، اور قدیم شاہی تمدن سے دلچسپی رکھنے والے مسافر جب قاہرہ، الاقصر یا وادی الملوک کی سمت جاتے ہیں تو گویا وقت کی پیٹھ پر سوار ہوکر ماضی کی تہذیب سے روبرو ہوتے ہیں۔ انہی سیاحوں میں ایک ممتاز اردو مصنف اور سفرنامہ نگار یعقوب نظامی بھی ہیں، جنہوں نے اپنے مصر کے سفر کو ایک دلکش اور یادگار تحریر — “مصر کا بازار” — کی صورت میں قلم بند کیا ہے۔
یعقوب نظامی ایک ممتاز اردو سفرنامہ نگار، مصنف اور مترجم ہیں جنہوں نے اردو ادب میں سیاحت اور مشاہدے کو نئی جہت دی۔ ان کی پیدائش ۱۵ اپریل ۱۹۵۵ء کو آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کے علاقے تتاپانی میں ہوئی۔ بعدازاں ان کا خاندان تحصیل منڈھر کے گاؤں سلوہ منتقل ہوا۔ ابتدائی تعلیم میرپور میں حاصل کی اور ۱۹۸۲ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے گریجویشن مکمل کی۔ اسی سال وہ برطانیہ منتقل ہوئے جہاں انہوں نے ترجمہ کا ڈپلومہ حاصل کیا اور مختلف کونسلوں میں اردو و پنجابی مترجم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
یعقوب نظامی کے سفرناموں میں مشاہدے کی باریکی، منظر نگاری اور تاریخی شعور نمایاں ہیں۔ ان کی معروف تصانیف میں “پاکستان سے انگلستان تک”، “پیغمبروں کی سرزمین”، “مصر کا بازار” اور “یورپ یورپ ہے” شامل ہیں۔ ان کے سفرنامے نہ صرف اردو ادب میں مقبول ہوئے بلکہ قاری کو دنیا کے مختلف خطوں کی تہذیب، تاریخ اور حسن سے روشناس کراتے ہیں۔
“مصر کا بازار” ایک جاذبِ نظر اور معلوماتی سفرنامہ ہے، جس میں مصنف نے مصر کی تاریخی عظمت، بازاروں کی چہل پہل، مقامی ثقافت اور عوامی زندگی کے رنگوں کو نہایت باریک بینی سے قلم بند کیا ہے۔ یہ کتاب قاری کو ایک ادبی اور روحانی سفر پر لے جاتی ہے، جہاں وہ بازاروں کے شور، دریائے نیل کی روانی، فراعنہ کی قبروں کی خاموشی اور مصری تہذیب کی چمک دمک کو اپنے دل و دماغ سے محسوس کرتا ہے۔
یہ اردو ادب و سیاحت کے شائقین کے لیے خاص تحفہ ہے، تاکہ وہ مصر کی سیر اور تاریخ کو اپنے گھر بیٹھے پڑھ کر محسوس کر سکیں۔ “مصر کا بازار” محض ایک سفرنامہ نہیں بلکہ مشاہدے، تاریخ، شاعری اور جذبات کی حسین آمیزش ہے، جو یعقوب نظامی کی نثر کو ایک ادبی وقار عطا کرتی ہے۔
اس کتاب کا درج ذیل اقتباس آوازِاردو نے سفرنامہ سیریز کی ایک ویڈیو میں پڑھ کر سنایا ہے، جو مصر کی وادی الملوک کے ایک یادگار منظر کو نہایت مؤثر انداز میں بیان کرتا ہے:
“الاقصر کے مندر کے قریب بڑی بڑی دو منزلہ اسٹیمر نما کشتیاں ہیں، جن کے ذریعے لوگ دریائے نیل کو عبور کرتے ہیں۔ ہم نے ٹکٹ خریدے اور ایک بڑی جہاز نما کشتی میں بیٹھ گئے۔ ہمارے ساتھ کچھ مصری بھی اس کشتی میں سوار تھے۔ جوں ہی ہم دوسرے کنارے پر اترے تو ہمارے ساتھ سفر کرنے والے ایک صاحب نے کہا کہ میں ریلوے اسٹیشن سے آپ کے ساتھ اس امید پر سفر کر رہا ہوں کہ آپ میری گاڑی میں بیٹھیں گے۔ ہمیں اس پر ترس آیا۔ یوں بھی وہ ہمیں معقول آدمی نظر آیا، جس نے نہایت مناسب دام بتائے۔ ہم اس کی ٹیکسی میں بیٹھے اور ویلی آف دی کنگز کی طرف چل پڑے۔
دریا کے دوسرے کنارے کا علاقہ بھی ہموار تھا۔ سڑکیں موجود تھیں، مگر دریائے نیل کو عبور کرنے کے لیے کوئی پل نہیں۔ چنانچہ دریا کے پار جو گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں وہ وہیں رہتی ہیں۔ لوگ کشتیوں یا اسٹیمر کے ذریعے دریا پار کر کے جب دوسری جانب جاتے ہیں تو وہاں کھڑی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ ٹیکسی ڈرائیور بھی اپنی گاڑیاں دریا کے اُس پار کھڑی کر کے دوسرے کنارے جا کر ریلوے اسٹیشن یا دوسری جگہوں سے مسافروں کو ساتھ لاتے ہیں۔
ہم نے سفر شروع کیا تو دور بھوری بھوری پہاڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ ہمیں انہی پہاڑیوں میں جانا تھا۔ دریائے نیل کے دوسرے کنارے نیو قرنہ (New Qurna) نامی گاؤں ہے۔ ’’نیو‘‘ اس لیے کہ پرانا گاؤں ویلی آف دی کنگز میں واقع ہے، جہاں فراعنہ کے زمانے میں دستکاروں کی بستی ہوا کرتی تھی۔
یہاں سے ہم ویلی آف دی کنگز کی طرف جانے لگے تو سڑک کے دائیں طرف دو بڑے بڑے مجسمے دیکھے، جن کے ارد گرد ہرے بھرے کھیت تھے۔ ان کھیتوں کے درمیان یہ دو مجسمے ٹمپل آف امنوفِس سوئم (Temple of Amenhotep III) کے ہیں۔ باون فٹ بلند یہ دیوہیکل مجسمے بادشاہ میمنون (Memnon) کے ہیں، جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اس مقام پر کبھی امنوفِس سوئم کا مندر تھا۔
کھیتوں کے درمیان سے ایک پختہ سڑک کے ذریعے ہم ویلی آف دی کنگز کی طرف جا رہے تھے۔ راستے میں سِتی اول (Seti I) کے مندر کے کھنڈرات بھی دیکھے، جسے رعمسیس دوم (Ramses II) نے مکمل کیا تھا۔ اس مندر کے باہر رعمسیس کے ساتھ ساٹھ فٹ اونچے مجسمے تھے، جن کا وزن نو سو ٹن تھا۔ آفاتِ زمانہ اور زلزلوں کے باعث یہ مجسمے ٹوٹ گئے، جن کے کچھ حصے اب بھی وہاں پڑے ہوئے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
جب میں ان مجسموں کو دیکھ رہا تھا تو مجھے انگریزی کے مشہور شاعر پَرسی بیش شیلے (Percy Bysshe Shelley) کی ایک نظم بہت یاد آئی، جس میں شیلے لکھتے ہیں:
Ozymandias
By Percy Bysshe Shelley (1818)
I met a traveller from an antique land,
Who said—“Two vast and trunkless legs of stone
Stand in the desert. . . . Near them, on the sand,
Half sunk a shattered visage lies, whose frown,
And wrinkled lip, and sneer of cold command,
Tell that its sculptor well those passions read
Which yet survive, stamped on these lifeless things,
The hand that mocked them, and the heart that fed;
And on the pedestal, these words appear:
My name is Ozymandias, King of Kings;
Look on my Works, ye Mighty, and despair!
Nothing beside remains. Round the decay
Of that colossal Wreck, boundless and bare
The lone and level sands stretch far away.”
یہ مجھے جس مندر کے کھنڈرات میں پڑے ہوئے مجسموں نے یاد دلائی، وہ شاہی میتوں کی آخری رسومات کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یہاں قریب ہی وہ جگہ تھی جہاں دورِ فراعنہ میں لاشوں کو حنوط کیا جاتا تھا۔
دریائے نیل کے کنارے سے تقریباً پانچ میل کا سفر طے کر کے ہماری گاڑی بھوری ریت کے ٹیلوں تک پہنچی تو ڈرائیور نے گاڑی دائیں ہاتھ موڑ دی۔ تقریباً ایک میل کا سفر ہم نے دو پہاڑیوں کے درمیان کیا تو گاڑی ایک کار پارک میں کھڑی کر دی گئی۔
یہ ویلی آف دی کنگز کا آغاز تھا اور اس کے آگے کسی بھی گاڑی کو جانے کی اجازت نہیں۔ کار پارک کے دونوں طرف دکانیں تھیں جن پر مصری لوگ اپنی پرانی تہذیب کی مناسبت سے چیزیں فروخت کر رہے تھے۔ آج پانچ مارچ کی تاریخ تھی۔ میں نے دھوپ سے بچنے کے لیے ایک پی کیپ خریدا۔
ویلی آف دی کنگز یا وادی الملوک سرخ ریت کے ٹیلوں کے درمیان ایک نالے کی مانند ہے۔ پہلی نظر میں مایوسی ہوتی ہے کہ ان ٹیلوں کے درمیان کچھ بھی نہیں۔ یہ ٹیلے بالکل ایسے ہیں جیسے میرپور کا نیا شہر آباد کرنے سے قبل بلاو گالہ میں تھے۔ بلکہ اب بھی شہر سے بن خرماں کی طرف پہاڑی کے دامن میں اسی طرح کے ٹیلے دیکھے جا سکتے ہیں، جنہیں مقامی لوگ ’’خیلے‘‘ کہتے ہیں۔
ویلی آف دی کنگز کے ان ویران ٹیلوں کے دامن میں تقریباً ستر مقبرے ہیں۔ یہ بالکل ایک کھائی ہے۔ اس کے دائیں بائیں دونوں طرف آپ چھوٹے چھوٹے دروازے دیکھیں گے، جن کے باہر اس بادشاہ کا نام لکھا ہوتا ہے جس کا مقبرہ ہے۔ ہم سب سے پہلے رعمسیس دوم کے والد کے مقبرے میں گئے۔ اس مقبرے کا نمبر 17 تھا۔
باہر سے یہ تنگ تھا، لیکن جوں ہی ہم اندر داخل ہوئے تو ایک سرنگ نما راستہ اندر ہی اندر جا رہا تھا۔ اس سرنگ کے دائیں بائیں اور چھت پر خوش نما پھول بوٹے اور فراعنہ کے دور کی زبان ہیروگلیفی (Hieroglyphic) میں تعریفی کلمات کندہ تھے۔ یہ سرنگ ایک کمرے پر جا کر ختم ہوتی تھی، جس میں دیوتاؤں کے مجسمے اور رنگین نقوش موجود تھے۔ اس طرح ایک کے بعد دوسرا کمرہ آتا جاتا۔ درمیان میں ایک جگہ ایسی تھی جس کے دونوں طرف زمین سے اوپر خوبصورت کمرے تھے۔ پھر آخر میں وہ کمرہ تھا جہاں کسی زمانے میں بادشاہ کی میت رکھی جاتی تھی۔ یہ مقبرہ زیرِ زمین تقریباً تین سو فٹ تک چلا جاتا ہے۔
مقبرے زیرِ زمین ہونے کے باعث اندر سے ٹھنڈے تھے جبکہ باہر دھوپ اور گرمی بہت تھی۔ سینکڑوں سیاح، جن میں اکثریت یورپ سے آئی ہوئی تھی، ایک ایک مقبرے کو بڑے غور سے دیکھ رہے تھے۔ یہ مقبرے جو زیرِ زمین غاروں میں بنے ہوئے ہیں، اندر سے ایک ہی طرز کے ہیں — فرق صرف نقش و نگار اور تحریروں کا ہے۔
رعمسیس دوم کے مقبرے میں اس کی جنگی فتوحات کے بڑے بڑے واقعات کندہ ہیں۔ جب اس نے مصر کے جنوب میں نوبیہ کے لوگوں سے جنگ کی اور ان پر فتح پانے کے بعد مغلوب قوم کے تحائف بادشاہ کے حضور پیش کیے، تو اس منظر کی خوبصورت نقش نگاری آج بھی دیواروں پر دیکھی جا سکتی ہے۔
جس کمرے میں بادشاہ کی میت رکھی جاتی تھی، اس کے بعد آگے خفیہ کمرے ہوتے تھے جن میں سونا، چاندی اور دوسری قیمتی چیزیں رکھی جاتی تھیں۔ یہ سب کچھ خفیہ رکھنے کا مقصد صرف ایک تھا — کہ یہ چیزیں دنیاوی آفات اور چور لٹیروں سے محفوظ رہیں۔”
یعقوب نظامی کا اندازِ بیان نہ صرف قاری کو منظر کے اندر لے جاتا ہے بلکہ وہ لفظوں سے تصویریں بناتے ہیں۔ “مصر کا بازار” محض مصر کی سیر نہیں بلکہ تاریخ، شاعری اور انسانی تجربے کا حسین امتزاج ہے۔ ان کے قلم نے اہرامِ مصر، دریائے نیل اور وادی الملوک کی پراسرار خاموشی کو زندگی بخشی ہے۔ آوازِاردو کی آواز میں جب یہ مناظر سنائی دیتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ مصر کی ریت، نیل کی ہوا، اور اہرام کی چھاؤں سب ہمارے قریب ہیں — یہی کسی کامیاب سفرنامے کی پہچان ہے۔