Introduction
The importance of water cannot be overstated. It is the lifeblood of every living being on Earth. Without water, survival is impossible. Yet, abundance has made people careless. We waste it daily. Many are unaware that this resource could cause future global conflicts. Around the world, experts warn that the wars of the next century may not be for oil or land but for water. Water’s importance goes beyond survival; it defines health, hygiene, and even a society’s moral conscience.
The Lifeline of the Earth
Nearly three-fourths of our planet is covered with water. Only one-fourth is land. Out of all the water on Earth, just about one per cent is suitable for human use. The rest is salty or trapped in glaciers. This tiny portion sustains all life. Modern science confirms a well-known truth: life began in water. Bodies of humans, animals, and plants all contain mostly water. The human body alone is about two-thirds water. This underlines water’s role as more than a simple element—it is the essence of existence.
Science, Purity, and Healing Power
Water is a natural purifier. Scientists have discovered that flowing water can cleanse itself within a few miles. It neutralises impurities and bacteria. This self-cleansing ability helps water maintain health and prevent disease.
Renowned physician and researcher Dr Khalid Ghaznavi emphasised this in his book Tib-e-Nabawi aur Jadeed Science (Prophetic Medicine and Modern Science). He explored how traditional teachings about hygiene, purification, and cleanliness — especially using water for physical and spiritual purity — align perfectly with modern medical science. According to him, washing after relieving oneself and bathing regularly prevent skin and infectious diseases, a truth now validated by global medical studies.
Water and the Natural World
The importance of water also lies in its role as the planet’s natural regulator. It maintains climate balance, supports agriculture, and keeps ecosystems alive. However, careless human behavior — pollution, deforestation, and overuse — is destroying this balance. In many rural areas, well water becomes contaminated due to the accumulation of falling leaves, animal waste, or the presence of nearby graveyards. Even urban regions suffer as industrial waste flows into rivers and seas, turning sources of life into carriers of disease.
When underground or surface water gets polluted, it affects not only drinking supplies but also the soil and the food grown in it. Every drop of clean water is a blessing, and every polluted drop is a threat to human survival.
The Global Water Crisis
Ignoring the importance of water is no longer just ignorance — it’s dangerous. Many countries, including parts of the Middle East, Africa, and South Asia, are already experiencing severe water shortages. Rivers are drying up, underground aquifers are being depleted, and millions are struggling to access clean water. This scarcity fuels conflicts, migration, and even health crises. If humanity continues its reckless behavior, the next global catastrophe may not come from weapons but from thirst.
A Call for Awareness and Responsibility
Water is more than a chemical compound; it is a divine sign — a symbol of purity, life, and renewal. Recognizing the importance of water means acknowledging our duty to protect it. Whether through simple actions like fixing leaks, planting trees near wells, or preventing water wastage, every step counts. The survival of future generations depends on the actions we take today.
If you’re interested in reading this book, click the link below for a free download.
https://drive.google.com/file/d/19PYIcH-hSaAlP27kBp_txSS7erLr5cSs/view?usp=sharing
If you’d like to listen to this book in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team to order the audiobook.
You can also watch the same video on these social media platforms.
We must value this divine gift by protecting water in our surroundings. Every drop matters. Let’s conserve it, purify it, and use it wisely — because ignoring the importance of water today could truly be deadly tomorrow.
دنیا میں سب سے زیادہ پائی جانے والی چیز پانی ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ دنیا کے کل رقبہ کا تین چوتھائی پانی پر مشتمل ہے اور ایک چوتھائی میں خشکی ہے۔ پانی کی مقدار کو ۳۳۰ ملین مکعب فٹ قرار دیا جاتا ہے۔ جس میں سے ۹۷ فیصدی نمکین سمندری پانی کی صورت میں ہے۔ یہ پانی شور اور نمکین ہونے کی وجہ سے قابل شرب نہیں لیکن سمندری حیوانات اس میں پلتے اور زندہ رہتے ہیں۔ کچھ سمندر ایسے بھی ہیں جن میں نمکیات کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ جانور بھی ان میں زندہ نہیں رہ سکتے۔ جیسے کہ مشرق وسطی میں بحیرہ مردار، دنیا کے بقایا پانی میں سے دو فیصدی قطبین، سائبیریا اور دوسرے برفانی علاقوں میں منجمد برف کی صورت میں ہے اور صرف ایک فیصدی دریاؤں، جھیلوں، ندی نالوں اور تالابوں کی قسم میں ملتا ہے دلچسپی کی بات یہ ہے کہ سمندروں میں نمک کی مقدار انسانی جسم میں پائے جانیوالے نمکیات
سے براہ راست تناسب میں ہے۔
حیوانات اور نباتات کے اجسام کا معقول حصہ پانی پر مشتمل ہے جسم انسانی کا دو تہائی پانی ہے۔ جدید تحقیقات سے یہ بات اب معلوم ہوئی ہے کہ کرہ ارض پر زندگی کی ابتداء بھی پانی سے ہوئی۔ جس حقیقت کو مدتوں پہلے قرآن مجید نے یوں بیان فرمایا:
کیا نہیں دیکھا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا کہ آسمان اور زمین کے منہ بند تھے اور ان دونوں کے دروازے کھولے گئے اور ہم نے ہر
زندہ چیز کو پانی سے بنایا) (الانبیاء: ۳۰)
پانی سے زندگی شروع ہوتی ہے اور وہی اس کا غالب جزو ہے اور اسی پر مدار حیات ہے۔ ایک عام انسان کو اپنی صفائی ، گھر کی صفائی ، کھانا پکانے اور پینے کے لیے روزانہ تھیں گیلن پانی کی ضرورت ہے اس کو وقتی طور پر کم تو کیا جا سکتا ہے لیکن مستقل طور پر ایسا کرنے سے تندرستی متاثر ہو سکتی ہے۔ جیسے کہ یورپ میں جسمانی اور ذاتی صفائی کا رواج نہیں ۔ رفع حاجت کے بعد مصفا پانی سے جسم کو دھونا اسلام کی ایجاد ہے۔ اور پتھروں مٹی کے ڈھیلوں یا کاغذوں سے غلاظت ہرگز دور نہیں ہوتی ۔ غلاظت جسم سے چپکی رہ جاتی ہے۔ بالوں میں پھنس جاتی ہے اور بعد میں جلد کی مقامی بیماریوں کا باعث ہوتی ہے۔ رفع حاجت کے بعد جسم کو پانی سے دھونے اور باقاعدہ نہانے والے کو جلد کی اکثر بیماریاں نہیں ہوتیں۔
ہے۔ پانی کا اپنا کوئی رنگ نہیں۔ بیان میں اسے بے رنگ کہا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کی مقدار زیادہ ہو تو نیلگوں نظر آتا ہے۔ لیکن بڑے ذخیروں میں رنگ میں تھوڑا سا فرق آ جاتا ۔ چین کے دریائے یا کسی کو دریائے زرد کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے پانی کا رنگ پہاڑوں سے یہ کر آنے والی مٹی کی وجہ سے زرد لگتا ہے۔ اس کی گزر گاہ میں مٹی اتنی زیادہ ہے کہ سالانہ اڑھائی انچ مٹی اس کی تہہ میں بیٹھ جاتی ہے۔ یہی صورتحال نہروں کی ہے کیونکہ ان میں دریاؤں کا پانی آتا ہے اور وہ اپنے کناروں کی مٹی بھی کاٹ کر اپنے میں شامل کرتی ہیں۔
پینے کے لیے پانی حاصل کرنے کے عام ذرائع دریا، ندی نالے، نہریں، تالاب، جھیلیں ، چشمے، کاریز اور کنوئیں ہیں ۔ جب بارش برستی ہے یا سردی کی وجہ سے آبی بخارات منجمد ہو کر پہاڑوں پر گرتے ہیں تو یہ پانی نالوں، دریاؤں اور چشموں کی صورت بہتے ہوئے میدانی علاقوں کی سمت آ جاتا ہے۔ بارش کا پانی رستے رستے میدان کے نیچے چلا جاتا ہے جسے ہینڈ پمپ یا کنواں کھود کر حاصل کیا جاتا ہے۔ عام کنواں زیادہ گہرا نہیں ہوتا۔ چونکہ بالائی سطح میں پانی کی مقدار زیادہ نہیں ہوتی اس لیے زیادہ مقدار حاصل کرنے کے لیے کنواں زیادہ گہرائی میں کھودا جائے ۔ عام پینے کے لیے زیادہ گہرائی میں نہیں جاتے لیکن جب پمپ لگانے کا مقصد کھیتوں کو سیراب کرنا یا کسی وسیع آبادی کو پانی مہیا کرنا ہو تو اس کی گہرائی ۱۰۰ میٹر کے لگ بھگ ہوتی ہے۔
دیہات میں کنوئیں کے پانی کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے اس کے کناروں پر گھنے سائے والے درخت لگانے کا رواج ہے۔ زیادہ تر بڑ اور پیپل کے درخت دیکھنے میں آتے ہیں۔ ان درختوں کے سوکھے پتے ، بڑ کے گولر ، درختوں پر بسیرا کرنے والے جانوروں کے پر اور ان کی نجاستیں کنوئیں میں مسلسل گرتی رہتی ہیں۔ اکثر کنوئیں قبرستانوں میں بنائے جاتے کی ہیں۔ اس قسم کے کنوؤں کا پانی انسانی استعمال کے قابل نہیں ہوتا۔ البتہ آبپاشی کے لیے ٹھیک ہے۔
سمندر اور دریاؤں کے قریب زیر زمین پانی کی سطح زیادہ گہری نہیں ہوتی اس لیے معمولی کھدائی پر پانی نکل آتا ہے۔ دریائے بیاس کے کنارے بھارت کی ریاست کپور تھلہ میں سات اور آٹھ فٹ گہرے کنوئیں دیکھے گئے۔ خلیج عرب کے کنارے بحرین سے متصل سعودی عرب کے شہر القطیف میں زیر زمین پانی اتنا قریب ہے کہ قبر کھود نے پر لحد پانی زیرزمین سے بھر جاتی ہے۔ اس لیے لوگ اپنے مردوں کو تابوت میں رکھ کر لحد کے بغیر دفن کرتے ہیں۔
دنیا میں کچھ مقامات ایسے ہیں کہ جہاں زیر زمین پانی کا دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ اس کو جہاں سے بھی زمین کمزور محسوس ہو، اچھل کر باہر آ نکلتا ہے اسے چشمہ کہا جا سکتا ہے۔ خلیج عرب کے جزیرہ تاروت میں جب زمین میں نلکا لگانے کے لیے سوراخ کیا جاتا ہے تو پانی اپنے آپ اچھل کر باہر آتا رہتا ہے۔ اس طرح ملکے کے ساتھ پمپ لگانے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ آسٹریلیا میں بھی ایسے خود کار کنوئیں پائے جاتے ہیں ۔ جن کو ARTISAN WELL کہتے ہیں۔ اونچی جگہ سے نیچے زیر زمین گندھک اور خاموش آتش فشاں پہاڑوں کی تہوں سے نکلنے والے چشموں کا پانی گرم ہوتا ہے جیسے کراچی میں منگھو پیر کا چشمہ ۔ ہال روڈ لاہور پر ایک پمپ کا پانی جلدی امراض کے علاج میں شہرت رکھتا ہے۔ ان پانیوں میں گندھک کی مقدار زیادہ نہیں ہوتی ۔ اس لیے شفا پانے کے لیے مدتوں روزانہ استعمال ضروری ہے۔
سطح زمین کے نیچے ہر قسم کی مٹی اور معدنیات پائے جاتے ہیں۔ زیر زمین جس علاقہ سے بھی پانی حاصل ہو گا اس میں اس علاقہ کی زمین کے نمکیات اور معدنیات کی آمیزش ہو میکنیشه گی جیسا کہ گندھک ، نمک ، کاربونیٹ، تینیشیم وغیرہ۔ گرم پانی کے چہ کے چشمے زیر زمین درجہ حرارت کی زیادتی اور گندھک کی وجہ سے گرم ہوتے ہیں۔ اسی طرح شاہی چشمہ سرینگر (کشمیر) اور الیاسی مسجد ایبٹ آباد کے پانی میں بھاری معدنیات، سلفیٹ اور کاربونیٹ زیادہ ہیں۔ اس لیے پانی پینے کے فورا بعد ڈکار آ جاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس نے کھانا ہضم کر دیا۔
دریاؤں ، نہروں اور ندی نالوں کا پانی گدلا ہونے کے باوجود کسی بیماری کا باعث نہیں ہوتا۔ بلکہ بہنے کے دوران سورج کی روشنی ، لہروں کی الٹ پلٹ سے آکسیجن کے اثرات، لا آبی جانور، پانی کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے نجاستوں کی مقدار کم ہو جاتی ہے اور بہاؤ کی تیزی جہاں کم ہو کافی چیزیں نیچے بیٹھ جاتی ہیں۔ اس مسئلہ پر ایک دلچسپ واقعہ امریکہ میں ہوا۔
ایک ریاست کے گندے نالے دریا میں گرتے تھے۔ اس سے اگلی ریاست کے لوگ وہی پانی پیتے تھے۔ ایک مرتبہ زیریں ریاست میں کوئی وبا پھوٹ پڑی انھوں نے بالائی ریاست والوں پر الزام لگایا کہ ان کی لاپروائی کی بدولت گندے پانی کی وجہ سے ہمارے یہاں وبا پھوٹی ۔ اس لیے حرجانہ دلایا جائے ۔ مسئلہ سپریم کورٹ میں گیا۔ جہاں ماہرین جراثیم نے فنی آراء دیں اور فیصلہ کیا گیا کہ غلاظت اگر دریا میں ڈالی جائے تو تین میں بہنےکےبعد وہ ضررساں نہیں رہتی