Plagiarism, or the act of stealing writings, was the focus of the 2008 issue of the renowned literary magazine ‘Asbat’ in India. In this issue, a notable article titled ‘Plagiarism’ by the late Mushfiq Khwaja is being narrated in this video. The tone is quite lighthearted. Khwaja, who is also known by the pen name Khama Bagosh, compares the writings of Agha Ashraf, an author in Urdu and Punjabi, with those of Dr. Yusuf Hussain Khan. Despite a span of 22 years between the publication of their books, the events described in both works are remarkably similar. The author has attempted to illustrate plagiarism by providing examples from these two books. Such instances are also found in the film industry, where stories are written by authors as well. This kind of literature should not be considered creation but rather labor, as it involves resorting to the works of others when one cannot come up with anything original or when their own abilities fall short. What are your thoughts?
If you’re interested in reading this book, click the link below for a free download.
https://drive.google.com/file/d/1yNfro5xVGYeAlONuabGMZIWj9QZt5_2S/view?usp=sharing
If you’d like to listen to this book in audio format, click the CONTACT button below to get in touch with the AwazeUrdu team for ordering the audiobook.
Click the link below to watch the video on Facebook as well.https://www.facebook.com/share/v/18EKsSBuMQ/
Click the link below to watch the video on Rumble
as well.https://rumble.com/v5oiiih-the-theft-of-words-understanding-plagiaris..html
Click the link below to watch the video on Febspot as well.
سرقہ نویسی ادب میں ایک غیر اخلاقی عمل ہے جس میں کسی دوسرے مصنف کی تحریر، خیالات یا تحقیقی مواد کو بغیر حوالہ دیے اپنے نام سے شائع کیا جاتا ہے۔ یہ علمی اور ادبی دیانت داری کے خلاف ہے اور تخلیقی سرقہ کے زمرے میں آتا ہے۔ سرقہ نویسی سے نہ صرف اصل مصنف کی حق تلفی ہوتی ہے بلکہ یہ ادبی معیار اور تخلیقی اظہار کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ اس عمل کو روکنے کے لیے تحقیقی و تخلیقی کام میں حوالہ جات کا درست استعمال اور ماخذ کی وضاحت ضروری ہے۔
اس قبیح عمل سے متعلق ہندوستان کے معروف ادبی رسالہ “اثبات” نے2008ء میں سرقہ نمبر شائع کیا۔ یہ رسالہ جناب اشعر نجمی کی ادارت میں تھانے (ممبئی) اور لاہور سے ایک ساتھ شائع ہوا، جس میں سرقہ نویسی سے متعلق تنقیدی وتحقیقی مضامین جمع کئے گئے ہیں۔
اس شمارے میں شائع ہونےوالامشفق خواجہ مرحوم کا مضمون “سرقہ نویسی” اس ویڈیومیں پڑھ کرسنایاگیاہے، خواجہ صاحب 1957ء سے 1973ء تک انجمن ترقی اردو پاکستان سے وابستہ رہے۔ وہ انجمن میں علمی و ادبی شعبے کے نگران رہے۔ ان کی خوش قسمتی تھی کہ انھیں مولوی عبدالحق جیسے پارکھ کی شفقت نصیب ہوئی، جنھوں نے مشفق خواجہ کے جوہرِ قابل کو پہچان کر اسے سامنے لانے میں بھرپور مدد کی۔
مشفق خواجہ نے سرقہ نویسی پر جو تنقیدی گفتگو کی ہے، اس کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ بعض ادیبوں نے دوسروں کے الفاظ، خیالات اور تجربات کو معمولی رد و بدل کے ساتھ اپنے نام سے پیش کیا۔ آغا اشرف کی خودنوشت بھی اسی زمرے میں آتی ہے، کیونکہ اس کے متعدد حصے ڈاکٹر یوسف حسین خان کی کتاب “یادوں کی دنیا” سے ہو بہو نقل کیے گئے ہیں۔
یہی نہیں، بلکہ زبان و بیان کی سطح پر بھی کئی مقامات پر مشابہت اتنی حیران کن ہے کہ محض فعل کے زمانے کی تبدیلی ہی تخلیقی سرقے کو چھپانے کے لیے کافی سمجھی گئی۔ مثال کے طور پر، پیرس کے سفر، واگون لی کے سفر، دریائے سین کے کنارے کتابوں کی دکانوں اور مشہور فرانسیسی پروفیسروں کے بارے میں دونوں کتابوں میں لفظی یکسانیت ظاہر کرتی ہے کہ آغا اشرف نے تخلیقی عمل کی بجائے نقل کی راہ اختیار کی۔
یہاں افسوسناک امر یہ ہے کہ خودنوشت جیسی صنف، جس میں مصنف کے ذاتی تجربات اور یادداشتوں کی سچائی اور انفرادیت بنیادی اہمیت رکھتی ہے، وہ بھی سرقے کی زد میں آ گئی۔ آغا اشرف کی کتاب محض ایک جذباتی داستان نہیں، بلکہ ان کی شخصیت کی تعمیر میں بھی جھول دکھاتی ہے۔ اگر کسی شخص کی محبتیں، تجربات اور مشاہدات بھی مستعار لیے ہوئے ہوں، تو اس کی خودی، اس کی شناخت کہاں باقی رہتی ہے؟
یہ صورتِ حال اس عمومی رویے کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے، جس میں بعض مصنفین، مشفق خواجہ کے بقول، “سرقے کو تخلیق کا درجہ دینے کی سعی کرتے ہیں۔” اردو ادب میں یہ مسئلہ نیا نہیں، لیکن جب کوئی سرقہ اتنے کھلے انداز میں سامنے آئے کہ اصل ماخذ سے تقابل کرنا آسان ہو جائے، تو پھر اسے محض اتفاق نہیں کہا جا سکتا۔
آخر میں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ “ایک دل ہزار داستان” کو “یادوں کی دنیا” کا سایہ کہا جا سکتا ہے، جو سرقہ نویسی کے ایک اور نمونے کے طور پر ادب کی تاریخ میں درج ہو چکی ہے۔